اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۶

 باز پرس سے مراد  روز قیامت کی باز پرس ہے۔ بد کار افراد اور قوموں پر دنیا میں جو عذاب آتا ہےوہ دراصل ان کے اعمال کی باز پرس نہیں ہے اور نہ وہ ان کے جرائم کی پوری سزا ہے۔ بلکہ اس کی حیثیت  تو بالکل ایسی ہے جیسے کوئی مجرم جو چھوٹا پھر رہا تھا، اچانک گرفتا ر کر لیا جائے اور مزید ظلم وفساد کے مواقع اُس سے چھین لیے جائیں۔ تاریخ انسانی اس قسم کی گرفتاریوں کی بے شمار نظیروں سے بھر پڑی ہے اور یہ نظیریں اس بات کی ایک صریح علامت ہیں کہ انسان کو دنیا میں شتر بےمہار کی طرح چھوڑ نہیں  دیا گیا ہےکہ جو چاہے کرتا پھرے، بلکہ اُوپر کوئی طاقت ہے جو ایک حدِ خاص تک اسے ڈھیل دیتی ہے، تنبیہات پر تنبیہات بھیجتی ہے کہ اپنی شرارتوں سے باز آجائے ، اور جب وہ کسی طرح باز نہیں آتا تو اسے اچانک پکڑ لیتی ہے۔پھراگر کوئی اس تاریخی تجربہ پر غور کرے تو بآسانی یہ بتیجہ بھی نکال سکتا ہے کہ جو فرمان روا اس کائنات پر حکومت کررہا ہےاس نے ضرور ایسا ایک وقت مقرر کیا ہوگا جب اِن سارے مجرموں پر عدالت قائم ہو گی  او ان سے ان کے اعمال کی باز پرس کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اُوپر  کی آیت کو جس میں دنیوی عذاب کا ذکر کیا گیا ہے، بعد والی آیت کے ساتھ”پس“کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے، گویا اس دنیوی عذاب کا باربار واقع ہونا  آخرت کی باز پرس سے یقیناً واقع ہونے پر ایک دلیل ہے۔