اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۴۷

اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح  ؑ  اور ان کی قوم سے کی گئی ہے، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم ؑ اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح ؑ کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا۔
قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح ؑ کی قوم اُس سر  زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں۔ بابِل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے، اُن میں تقریباً اُسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آرہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح ؑ  کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھری تھی۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے  آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے نواح میں نوح ؑ کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اِس شہر کی نبا حضرت نوح ؑ نے ڈالی تھی۔
حضرت نوح ؑ کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ،مصر، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما، ملایا، جزائر شرق الہند، آسٹریلیا، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی  ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اُس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی  تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نےاپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا  ایک بھا ری خول چڑھادیا۔