اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۳۵

 اہلِ جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سےکسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہو جائے گا ۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہو گی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ وہاں  آواز  اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ اِن مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شینید کر سکیں گے۔یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں  قرآن میں ملتے ہیں۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین  ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے، اگر چہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ اِس  عالمِ طبیعی کے حدود میں  اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن ور حدیث اِن بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اُڑا کر  اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کو دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اُتنے تنگ نہیں ہیں۔