اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۳١

 اہل دوزخ کی اس باہمی تکرار کو قرآن مجید میں کئی جگہ بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ سبا آیات ۳١۔۳۳ میں ارشاد ہوتا ہے کہ ”کاش تم دیکھ سکو اُس موقع کو جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے اور ایک دوسرے پر باتیں بنا رہے ہوں گے۔ جو لوگ دنیا میں کمزور بنا کر رکھے گئے تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بن کر رہے تھے، کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن  ہوتے۔ وہ بڑے بننے والے ان کمزور بنائے ہوئے لوگوں کو جواب دیں گےہم نے تم کو ہدایت سے روک دیا تھا جب کہ وہ تمہارے پاس آئی تھی؟ نہیں، بلکہ تم خود مجرم تھے۔“ مطلب یہ ہے کہ تم خود کب ہدایت کے طالب تھے؟ اگر ہم نے تمہیں دنیا کے لالچ دے کر اپنا بندہ بنایا تو تم لالچی تھے جب ہی تو ہمارے دام میں گرفتا ہوئے۔ اگر ہم نے تمہیں خریدا تو تم خود بکنے کے لیے تیار تھے جب ہی تو ہم خرید سکے۔ اگر ہم نے تمہیں مادہ پرستی اور دنیا پرستی  اور قوم پرستی اور ایسی ہی دوسری گمراہیوں اور بد اعمالیوں میں مبتلا کیا تو تم خود خدا سے بے زار اور دنیا  کے پرستا ر تھے جب ہی تو تم نے خدا پرستی کی طرف بلانے والوں  کو چھوڑکر ہماری پکار پر لبیک کہا اگر ہم نے تمہیں مذہبی قسم کے فریب دیے تو اُن چیزوں کی مانگ تو تمہارے ہی اندر موجود تھی جنہیں ہم پیش  کرتے تھے اور تم لپک لپک کر لیتے تھے۔ تم خدا کے بجائے ایسے حاجت روا مانگتے تھے جو تم سے کسی اخلاقی قانون کی پابندی کا مطالبہ نہ کریں  اور بس تمہارے کام بناتے رہیں۔ ہم نے  وہ حاجت روا تمہیں گھڑ کر دے دیے۔ تم کو ایسے سفارشیوں کی تلاش تھی کہ تم خدا سے بے پرواہ ہو دنیا کے  کُتّے بنے رہو اور بخشوانے  کا ذمہ وہ لے لیں۔ہم نے وہ سفارشی تصنیف کر کے تمہیں فراہم کر دیے۔ تم چاہتے تھے کہ خشک دبے مزہ دینداری اور پرہیزگاری اور قربانی اور سعی وہ عمل کے بجائے نجات کا کوئی اور راستہ بتا یا جائے جس میں نفس کے لیے لذتین ہی لذتیں ہوں اور خواہشات پر پابندی کوئی نہ ہو۔ ہم نے ایسے خوش نما مذہب تمہارے لیے ایجاد کر دیے۔ غرض یہ کہ ذمہ داری تنہا ہمارے ہی اوپر نہیں ہے۔ تم بھی برابر کے ذمہ دار ہو۔ ہم اگر کمراہی فراہم کرنے والےتھے تو تم اس کے خریدار تھے۔