اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۳۰

 یعنی بہرحال تم میں سے ہر گروہ کسی کا خلف تھا تو کسی سلف بھی تھا۔اگر کسی گروہ کے اسلاف نے اُس کے لیے فکر وعمل کی گمراہیوں کا ورثہ چھوڑا تھا تو خود وہ بھی اپنے اخلاف کے لیے ویسا ہی ورثہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوا۔اگر ایک گرہ کے گمراہ ہونے کی کچھ ذمہ داری اس کے اسلاف پر عائد ہوتی ہے تو اس کے اخلاف کی گمراہی کااچھا خاصا بارخود اس پر بھی عائد ہوتا ہے۔ اسی بنا پر فرمایا کہ ہر ایک کے لیے دو ہر عذاب ہے۔ ایک عذاب خود گمراہی اختیار کرنے کااور دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے کا۔ ایک سزا اپنے جرائم کی اور دوسری سزادوسروں کے جرائم پیشگی کی میراث چھوڑ آنے کی۔
حدیث میں اسی مضمون کی توضیح یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ من ابتدع بدعة ضلالةِ لا یر ضا ھا اللہ و رسولہ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من عمل بھا لا ینقص ذالک من اوزارھم شیئا۔ یعنی جس نے کسی نئی گمراہی کا آغاز کیا جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ ہو، تو اس پر ان سب لوگوں کے گناہ کی ذمہ داری عائد ہوگی جنہوں نے اس  کے نکالے ہوئے طریقہ پر عمل کیا ، بغیر اس کے کہ خود ان عمل کرنے والوں کی ذمہ داری میں کوئی کمی ہو۔ دوسری حدیث میں ہے لاتقتل نفس ظلما الاکان علی ابن اٰدم الاول کفل من دمھالا نہ اول من سن القتل ۔یعنی دنیا میں جو انسان بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جاتا ہے اس کے خونِ نا حق کا ایک حصہ آدم کے اُس پہلے بیٹے کو پہنچتا ہے جس نے اپنے بھائی  کو قتل کیاتھا، کیونکہ قتلِ انسان کا راستہ سب سے پہلے اسی نے کھولا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص یا گرہ کسی غلط خیال یا غلط رویّہ کی بنا ڈالتا ہے وہ صرف اپنی ہی غلطی کا ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں جتنے انسان اس سے متاثر ہوتے ہیں اُن سب کے گناہ کی ذمہ داری کا بھی ایک حصہ اس کے حساب میں لکھا جاتا رہتا ہے اور جب تک اس کی غلطی کے اثرات چلتے رہتے ہیں اس کے حساب میں ان کا اندراج ہاتا رہتا ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر شخص اپنی نیکی یا بدی کا صرف اپنی ذات کی حد تک ہی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اس امر کا بھی جواب دہ ہے کہ اس کی نیکی یا بدی کے کیا اثرات دوسروں کی زندگیوں پر مرتب ہوئے۔
مثال کے طور پر ایک زانی کو لیجیے۔ جن لوگوں کی تعلیم و تربیت سے، جن کی صحبت کے اثر سے، جن کی بُری مثالیں دیکھنے سے ، اور جن کی ترغیبات سے اس شخص کے اندر زنا کاری کی صفت نےظہور کیا وہ سب اس کے زنا کار بننے میں حصہ دار ہیں۔اور خود اُن لوگوں نے اوپر جہاں جہاں سے اس بد نظری وبدنیتی اور بدکاری کی میراث پائی ہے وہاں تک اس کی ذمہ داری پہنچتی ہے حتٰی کہ یہ سلسلہ اس اولین انسان پر منتہی ہوتا ہے جس نے سب سے پہلے نوعِ انسانی کوخواہش نفس کی تسکین کا یہ غلط راستہ دکھایا۔ یہ اُس زانی کے حساب کا وہ حصہ ہے جو اس کے ہم عصروں اور اس  کے اسلاف سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر وہ خود بھی اپنی زنا  کاری کا ذمہ دار ہے۔ اُس کو بھلے اور بُرے کی جو تمیز دی گئی تھی، اس میں ضمیر کی جوطاقت رکھی گئی تھی، اس کے اندر ضبطِ نفس کی جو قوت ودیعت کی گئی تھی، اس کو نیک لوگوں سےخیر و شر کا جو علم پہنچاتھا، اس کے سامنے اخیار کی جو مثالیں موجود تھیں، اس کو صنفی بدعملی کے برے نتائج سے  جو واقفیت تھی، ان میں سے کسی چیز سے بھی اس نے فائدہ نہ اُٹھایا اور اپنےآپ کو نفس کی اُس اندھی خواہش کے حوالے کر دیا جو صرف اپنی تسکین چاہتی تھی خواہ وہ کسی طریقہ سے ہو۔ یہ اس کےحساب کا وہ حصہ ہے جو اس کی اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ پھر یہ شخص اُس بدی کو جس کا اکتساب اس نے کیا اور جسے خود اپنی سے وہپرورش کرتا رہا، دوسروں میں پھیلانا شروع کرتا ہے۔ کسی مرضِ خبیث کی چھوت کہیں سے لگا لاتا ہے اور اسےاپنی نسل میں اور خدا جانے کن کن نسلوں میں پھیلا کر نہ معلوم کتنی اندگیوں کوخراب کر دیتا ہے۔کہیں اپنا نطفہ چھوڑ آتا ہے اور جس بچہ کی پرورش کا بار اسے خود اُٹھانا چاہیے تھا اسے کسی اور کی کمائی  کا ناجائز حصہ دار، اس کےبچون کےحقوق میں زبردستی کا شریک، اس کی میراث میں ناحق کا حق دار بنا دیتا ہے اور اِس حق تلفی کا سلسلہ نہ معلوم کتنی نسلوں تک چلتا رہتا ہے۔ کسی دوشیزہ لڑکی کو پُھسلا کر بد اخلاقی کی راہ پر ڈالتا ہےاور اس کے اندر وہ بُری صفات ابھار دیتا ہے جو اس سے منعکس ہو کر نہ معلوم کتنے خاندانوں اور کتنی نسلوں تک پہنچتی ہیں اور کتنے گھر بگاڑ دیتی ہیں۔ اپنی اولاد ،اپنے اقارب، اپنے دوستوں اور اپنی سوسائٹی کےدوسرے لوگوں کے سامنے اپنے اخلاق کی ایک بُری مثال پیش کرتا ہے اور نہ معلوم کتنے آدمیں کے چال چلن خرب کرنے کا سبب بن جاتا ہےجس کےاثرات بعد کی نسلوں میں مدّتہائے دراز تک چلتے رہتے ہیں ۔ یہ سارا فساد جو اس شخص نے سوسائٹی میں برپا کیا، انصاف چاہتا ہے کہ یہ بھی اس کے حساب میں لکھا  جائے اور اس وقت تک لکھا جاتا رہے جب تک اس کی پھیلائی ہوئی خرابیوں کا سلسلہ دنیا میں چلتا رہے ۔
اس پر نیکی کو بھی قیاس کر لینا چاہیے۔ جو نیک ورثہ اپنے اسلاف سے ہم کو ملا ہے اُس کا اجر اُن سب لوگوں کو پہنچنا چاہیے جو ابتدائے آفر نیش سے ہمارے زمانہ تک اُس  کے منتقل کرنے میں حصہ لیتے رہے ہیں پھراس ورثہ کو لے کر اسے سنبھالنے اور ترقی دینے میں جو خدمت ہم انجام دیں گے اس کا اجر ہمیں بھی ملنا چاہیے۔ پھر اپنی سعی خیر کے جو نقوش و اثرات ہم دنیا میں چھوڑ جائیں گے انہیں بھی ہماری بھلائیوں کے حساب میں اس وقت تک برابر درج ہوتے رہنا چاہیےجب تک یہ نقوش باقی رہیں اور ان کے اثرات کا سلسلہ نوعِ انسانی میں چلتا رہے اور ان کے فوائد سے خلقِ خدا متمتع ہوتی رہے۔
جزا کی یہ صورت جو قرآن پیش کر رہا ہے، ہر صاحب ِ عقل انسان تسلیم کرےگا کہ صحیح اور مکمل انصاف اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو اس سے اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہو سکتی ہیں جنہوں نے جزا ء کے لیے اسی دنیا کی موجودہ زندگی کو کافی سمجھ لیا ہے، اور اُن لوگوں کی غلط فہمیاں بھی جو یہ گمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اس کے اعمال کی پوری جزاء تناسُخ کی صورت میں مل سکتی ہے۔ دراصل ان دونوں گروہوں نے نہ تو انسانی اعمال اور ان کے اثرات و نتائج کی وسعتوں کو سمجھا ہے اور نہ منصفانہ جزا اور اس کے تقاضوں کو ۔ ایک انسان آج اپنء پچاس ساٹھ سال کی زندگی میں جو اچھے یا بُرے کام کرتا ہے ان کی ذمہ داری میں نہ معلوم اوپر کی کتنی نسلیں شریک  ہیں جو گزر چکیں اور آج یہ ممکن نہیں کہ انہیں اس کی جزاء یا سزا پہنچ سکے۔ پھر اس شخص کے یہ اچھے یا بُرے اعمال جو وہ آج کر رہا ہے اس کی موت کے ساتھ ختم نہیں  ہو جائیں  گے بلکہ ان کے اثرات کا سلسلہ آئندہ صد ہا برس تک چلتا  رہے گا، ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں  انسانوں تک پھیلے گا اور اس کے حساب کا کھاتہ اس وقت تک کھلا رہے گا جب تک یہ اثرات چل رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں۔ کس طرح ممکن ہے کہ آج ہی اِس دنیا  کی زندگی میں  اس شخص کو اس کے کسب کی پوری جزا مل جائے درآں حالے کہ ابھی اس کے کسب کے اثرات کا لاکھواں حصہ بھی رونما نہیں ہوا ہے۔  پھر اس دنیا کی محدود زندگی اور اس کے محدود امکانا ت سرے سے اتنی گنجائش ہی نہیں رکھتے کہ یہاں کسی کو اس کے کسب کا پورا بدلہ مل سکے۔ آپ کسی ایسے شخص کے جرم کا تصور کیجیے جو مثلاً  دنیا میں ایک جنگِ عظیم کی آگ بھڑکاتا ہے او ر اس کی  اس حرکت کے بے شمار برے نتائج ہزاروں برس تک اربوں انسانوں تک پھیلتے ہیں۔ کیا کوئی بڑی سے بڑی جسمانی ، اخلاقی ، روحانی، یا مادّی سزا بھی، جو اس دنیا میں  دی جانی ممکن ہے، اُس کے اِس جرم کی پوری منصفانہ سزا ہو سکتی ہے؟ اسی طرح کیا دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا انعام بھی، جس کا تصور آپ کر سکتے ہیں، کسی ایسے شخص کے لیے کافی ہو سکتا ہے جو مدّةالعمر نوعِ انسانی کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہا ہو اور ہزاروں سال تک بے شمار انسان جس کی سعی کے ثمرات سے فائدہ اُٹھائے چلے جارہے ہوں۔ عمل اور جزا کے مسئلے کو اس پہلو سے جو شخص دیکھے گا اُسے یقین ہو جائے گا کہ جزا کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے جہاں تمام اگلی اور پچھلی نسلیں جمع ہوں، تمام انسانوں کے کھاتے بند ہو چکے ہوں، حساب کرنے کے   لیے ایک علیم و خیبر خدا انصاف کی کُرسی پر متمکن ہو، اور اعمال کا پورا بدلہ پانے کے لیے انسان کے پاس  غیر محدودزندگی اور اس کے گردوپیش جزا و سزا کے غیر محدودامکانات موجود ہوں۔
پھر اسی پہلو پر غور کرنے سے اہلِ تناسُخ کی ایک اور بنیادی غلطی کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے جس میں مبتلا ہو انہوں ے آواگون کو چکر تجویز کیا ہے۔ وہ اس حقیقت  کو نہیں سمجھے کہ صرف ایک ہی مختصر سی پچاس سالہ زندگی کے کارنامے کا پھل پانے کے لیے اُس سے ہزاروں گنی  زیادہ طویل زندگی درکار ہے،کجا کہاس پچاس سالہ زندگی کے ختم ہوتے ہی ہماری ایک دوسری اور پھر تیسری ذمہ دارانہ زندگی اِسی دنیا میں شروع ہو جائے اور ان زندگیوں میں بھی  ہم مزید ایسے کام کرتے چلے جائیں جن کا اچھا یا بُرا پھل ہمیں ملنا ضروری ہو۔ اِس طرح تو حساب بے باق ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھتا ہی چلا جائے گا اور اس کے بے باق ہونے کی نوبت کبھی آہی نہ سکے گی۔