اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر۲

یعنی بغیر کسی جھجک اور خوف کے اِسے لوگوں تک پہنچا دو اور اس بات کی کچھ پرواہ نہ کرو کہ مخالفین اس کا کیسا استقبال کریں گے۔ وہ بگڑتے ہیں، بگڑیں۔ مذاق اُڑاتے ہیں، اُڑائیں۔ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں، بنائیں۔ دشمنی میں اور زیادہ سخت ہوتے ہیں، ہو جائیں۔ تم بے کھٹکے اِس پیغام  کو پہنچاؤ اور اس کی تبلیغ میں ذرا  باک نہ کرو۔
جس مفہوم کے لیے ہم نے لفظ ِ جھجک استعمال کیا ہے، اصل عبارت میں اس کے لیے لفظ حَرَج ٌاستعمال ہوا ہے ۔ لغت میں حرج اُس گھنی جھاڑی کو کہتے ہیں جس میں سے گزرنا مشکل ہو ۔ دل میں حرج ہونے کا مطلب یہ ہُوا کہ مخالفتوں اور مزاحمتوں کے درمیان اپنا راستہ صاف نہ پاکرآدمی کا دل آگے بڑھنے سے رُکے۔ اسی مضمون کو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر  ضیق صدر کے لفظ سے بھی تعبیر کیا  گیا ہے۔ مثلاً وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّکَ یَضِيْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ  (الحجر۸ ، آیت ۹۷)”اے محمد ؐ ، ہمیں معلوم ہے کہ جو باتیں  یہ لوگ بناتے ہیں ان سے تم دل تنگ  ہوتے ہو“۔ یعنی  تمہیں پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ جن لوگوں کی ضد اور ہٹ دھرمی اور مخالفتِ حق کا یہ حال ہے انہیں آخر کس طرح سیدھی راہ پر لایا جائے۔ فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ  بَعْضَ مَا یُوحٰیٓ اِلَیْکَ وَضَائِقٌۢ  بِہٖ صَدْرُکَ اَنْ یَّقُوْلُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ کَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَہ مَلَکٌ (ہود، آیت ١۲)”تو کہیں ایسا نہ ہو کہ جو کچھ تم پر وحی کیا جا رہا ہے اس میں سے کوئی چیز تم بیان کرنے سے چھوڑ دو اور اس بات سے دل تنگ ہو کہ وہ تمہاری دعوت کے جواب میں کہیں گے اِس پر کوئی خزانہ کیوں نہ اُترایا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا۔“