اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر١٦

 ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں:
اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طورپر نہیں رکھی  بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا۔ اس نے انسان کے لیے اُس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنا یا بلکہ  سَوْأة ْ بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا(اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا)تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اِس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام سے رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کےلیے رِیش(جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ)ہو۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ا ُن کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ”ریش“ ہونا ہے، رہا اس کا ستر پوش ہونا  تو اُن کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة  ہی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھپانے کے لیے حیوانا ت کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا ۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر اُلٹ گیا۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہٖ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَوْأة  نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة  نہیں ، محض اعضاء صنفی ہی ہیں۔
سوم  یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخرو غرور اور تکبروریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراضکی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیا ر کرتےہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنےلگتی ہیں،اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنء ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔لباس  کے معاملہ میں اِس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح اُن لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہمالسلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کوبالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے۔جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتےہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں، پھر  یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلاکرکے ہی چھوڑتے ہیں۔
چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی اُن بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے۔ اُوپر جن حقائق کیطرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے۔