اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر ۱۴۶

یہاں مشرکین کی جاہلانہ گمراہیوں پر تنقید کی گئی ہے۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ نوع انسانی کو ابتداء وجود بخشنے والا اللہ تعالیٰ ہے جس سے خود مشرکین کو بھی انکا ر نہیں۔ پھر  ہر انسان کو وجود عطا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس بات کو بھی مشرکین جانتے ہیں۔ عورت کے رحم میں نطفے کو ٹھیرانا، پھر اس خفیف سے حمل کو پرورش کرکے ایک زندہ بچے کی صورت دینا ، پھر اس بچے کے اندر طرح طرح کی قومیں اور قابلیتیں ودیعت کرنا اور اس کو صحیح و سالم انسان بنا کر پیدا کرنا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیا ر میں ہے۔ اگر اللہ عور ت کے پیٹ میں بندر یا سانپ یا کوئی اور عجیب الخلقت حیوان پیدا کردے، یا بچے کو پیٹ ہی میں اندھا  بہرا لنگڑا لولا بنا دے، یا اس کی جسمانی و ذہنی اور نفسانی قوتو ں میں کوئی نقص رکھ دے تو کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ کی اس ساخت کو بدل ڈالے۔ اس حقیقت سے مشرکین بھی اسی طرح آگاہ ہیں جس طرح موحِّدین۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زمانہ حمل میں ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوتی ہیں کہ وہی صحیح و سالم بچہ پیدا کرے گا۔ لیکن اس پر بھی جہالت و نادانی کے طغیان کا یہ حال ہے کہ جب اُمید بر آتی ہے اور چاند سا بچہ نصیب ہو جاتا ہے تو شکر یے کے لیے نذریں اور نیازیں کسی دیوی، کسی اوتار، کسی ولی اور کسی حضرت کے نام پر چڑھائی جاتی ہیں اور بچے کو ایسے نام دیے جاتے ہیں  کہ گویا وہ خدا کے سوا کسی اور کی عنایت کا نتیجہ ہے، مثلاً حسین بخش، پیر بخش، عبدالرسول، عبدالعُزّیٰ اور عبد شمس وغیرہ۔
                اس تقریر کے سمجھنے میں ایک بڑی غلط فہمی واقع ہوئی ہے جسے ضعیف روایات  نے اور زیادہ تقویت پہنچا دی۔ چونکہ آغاز میں نوع انسانی کی پیدائش ایک جان سے ہونے کا ذکر آیا ہے، جس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں، اور پھر فوراً ہی ایک مرد و عورت کا ذکر شروع ہو گیا ہے جنہوں نے پہلے تو اللہ سے صحیح و سالم بچے کی پیدئش کے لیے دعا کی اور جب بچہ  پیدا ہو گیا تو اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک ٹھیرا لیا۔ اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا  کہ یہ شرک کرنے والے میاں بیوی ضرور حضرت آدم و حوا علیہما السلام ہی ہوں گے۔ اس غلط فہمی پر روایات کا ایک خول چڑھ گیا اور ایک پورا قصہ تصنیف کر دیا گیا کہ حضرت حوا کے بچے پیدا ہو  ہو کر  مر جاتے تھے، آخر کار ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر شیطان نے ان کو بہکا کر اس بات پر آمادہ کر دیا کہ اس کا نام عبدالحارث(بندہ  شیطان)رکھ دیں۔ غضب یہ ہے کہ ان روایات میں سے بعض کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچا دی گئی ہے۔ لیکن درحقیقت یہ تمام روایات غلط ہیں اور قرآن کی عبارت بھی ان کی تائید نہیں کرتی ۔ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نوع انسانی کا پہلا جوڑا جس سے آفرنیش کی ابتداہوئی ۔ اس کا خالق بھی اللہ ہی تھا، کوئی دوسرا اس کار تخلیق میں شریک نہ تھا، اور پھر ہر مرد و عورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے جس کا اقرار تم سب لوگوں کے دلوں میں موجود ہے، چنانچہ اسی اقرار کی بدولت تم امید وہم کی حالت میں جب دعا مانگتے ہو تو اللہ ہی سے مانگتے ہو، لیکن بعد میں جب امیدیں پوری ہو جاتی ہیں تو تمہیں شرک کی سوجھتی ہے۔ اس تقریر میں کسی خاص مرد اور خاص عورت کا ذکر نہیں ہے بلکہ مشرکین میں سے ہر مرد اور ہر عورت  کا حال بیان کیا گیا ہے۔
                ا س مقام پر ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی مذمت کی ہے وہ عرب کے مشرکین تھے اور ان کا تصور یہ تھا کہ وہ صحیح و سالم  اولاد پیدا ہونے کے لیے تو خدا ہی سے مانگتے تھے مگر جب بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو اللہ کے اس عطیہ میں دوسروں کو شکریے کا حصہ دار ٹھیرا لیتے تھے۔ بلا شبہہ یہ حالت بھی نہایت بُری تھی۔ لیکن اب جو شرک ہم توحیدک ے مدعیون میں پارہے ہیں وہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ ظالم تو اولاد بھی غیروں ہی سے مانگتے ہیں۔ جمل کے زمانے میں مَنَّتیں بھی غیروں کے نام  ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا پونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں  پر چڑھاتے ہیں۔ اس پر بھی زمانہ جاہلیت کے عرب مشرک تھے اور یہ موجد ہیں، اُن کے لیے جہنم وا جب تھی اور ان کے لیے نجات کی گارنٹی ہے، اُن کی گمراہیوں پر تنقید کی زبانیں تیز ہیں مگر اِن کی گمراہیوں پر کوئی تنقید کر بیٹھے تو مذہبی درباروں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اسی حالت کا ماتم حالی مرحوم نے اپنی مسدس میں کیا ہے:۔

کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر
جو ٹھیرائے بیٹا خدا کا تو کافر
جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر
کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر
مگر مومنوں پر کشاہ ہیں راہیں    
    پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں
نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں
  اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں
مزاروں پہ جا جا کہ نذریں چڑھائیں
شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں
نہ توحید میں کچھ  خلل اس سے آئے   
   نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے