اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر١۴۲

انسان اپنی زبان میں اشیاء کے جو نام رکھتا ہے وہ دراصل اس تصور پر مبنی ہوتے ہیں جو اس کے ذہن میں اُن اشیاء کے متعلق ہوا کرتا ہے۔ تصور کا نقص نام کے نقص کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور نام کا نقص تصوّر کے نقص پر دلالت کرتا ہے۔ پھر اشیاء کے ساتھ انسان کا تعلق اور معاملہ بھی لازماً اُس تصور پر ہی مبنی ہوا کرتا ہےجو اپنے ذہن میں اس کے متعلق رکھتا ہے۔ تصور کی خرابی تعلق کی خرابی میں رونما ہوتی ہے اور تصور کی صحت و درستی میں نمایاں ہو کر رہتی ہے۔ یہ حقیقت جس طرح دنیا کی تمام چیزوں کے معاملہ میں صحیح ہے اسی طرح اللہ کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ اللہ کے لیے نام(خواہ وہ اسماء ذات ہوں یا اسماء صفات)تجویز کرنے میں انسان جو غلطی بھی کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی ذات و صفات کے متعلق اس کے عقیدے کی غلطی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پھر خدا کے متعلق اپنے تصورو اعتقاد میں انسان جتنی اور جیسی غلطی کرتا ہے، اتنی ہی اور ویسی ہی غلطی اس سے اپنی زندگی کے پورے اخلاقی رویہ کی تشکیل میں سرزد ہوتی ہے، کیونکہ انسان کے اخلاقی رویہ کی تشکیل تمام تر منحصر ہے اُس تصور پر جو اس نے خدا کے  بارے میں اور خدا کے  ساتھ اپنے اور کائنات کے تعلق کے بارے میں قائم کیا ہو۔ اسی لیے فرمایا کہ خدا کے نام رکھنے میں غلطی کرنے سے بچو، خدا کے لیے اچھے نام ہی  موزوں ہیں اور اسے اُنہی نامو ں سے یاد کرنا چاہیے، اس کے نام تجویز کرنے میں الحاد کا انجام بہت بُرا ہے۔
                ”اچھے ناموں“سے مراد وہ نام ہیں جن سے خدا کی عظمت و بر تری، اس کے تقدس اور پاکیزگی، اور اس کی صفات کمالیہ کا اظہار ہوتا ہو۔”الحاد“کے معنی ہیں وسط سے ہٹ جانا ، سیدھے رُخ سے منحرف ہو جانا۔ تیر جب ٹھیک نشانے پر بیٹھنے کے بجائٕے کسی دوسری طرف جا لگتا ہے تو عربی میں کہتے ہیں اَلحد السہمُ الھدفَ، یعنی تیرنے نشانے سے الحاد کیا۔ خدا کے نام رکھنے میں الحاد یہ ہے کہ خدا کو ایسے نام دیے جائیں گو اس کے مرتبے سے فروتر ہوں، جو اس کے ادب کے منافی ہوں ، جن سے عیوب اور نقائص اس کی طرف منسوب ہوتے ہوں، یا جن سے اس کی ذاتِ اقدس و اعلیٰ کے متعلق کسی غلط عقیدے کا اظہار ہوتا ہو۔ نیز یہ بھی الحاد ہی ہے کہ مخلوقات میں کسی کے لیے ایسا نام رکھا جائے جو صرف خدا ہی کے لیے موزوں ہو۔ پھر یہ فرمایا کہ اللہ کے نام رکھنے میں جو لوگ الحاد کرتے ہیں ان کو چھوڑدو۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ سیدھی طرح سمجھانے سے نہیں سمجھتے تو ان کی کج بحثیوں میں تم کو اُلجھنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی گمراہی کا انجام وہ خود دیکھ لیں گے۔