اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر ۱۳۵

اس آیات میں وہ غرض بیان کی گئی ہے  جس کے لیے ازل میں پوری نسلِ آدم سے اقرار لیا گیا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو لوگ اپنے خدا سے بغاوت اختیار کریں وہ اپنے اِس جرم کے پوری طرح ذمہ دار قرار پائیں ۔ اُنہیں اپنی صفائی میں نہ تو لاعلمی کا عذر پیش کرنے کا موقع ملے اور نہ وہ سابق نسلوں پر اپنی گمراہی کی ذمہ داری ڈال کر خود بری الذمہ ہو سکیں گویا بالفاظ دیگر اللہ تعالیٰ اس ازلی عہد و میثاق کو اس بات پر دلیل قرار دیتا ہے کہ نوعِ انسانی میں سے ہر شخص انفرادی طور پر  اللہ کے الٰہِ واحد اور ربِّ واحد ہونے کی شہادت اپنے اندر لیے ہوئے ہے اور اس بنا پر یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی شخص کامل بے خبری کے سبب سے، یا ایک گمراہ ماحول میں پر ورش پانے کے سبب سے اپنی گمراہی کی ذمہ داری سے بالکلیہ بری ہو سکتا ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ازلی میثاق فی الواقع عمل میں آیا  بھی تھا تو کیا اس کی یاد ہمارے شعور اور حافظہ میں محفوظ ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی شخص بھی یہ جانتا ہے کہ آغازِ آفرنیش میں وہ اپنے خدا کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور اس سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال ہوا تھا اور اس نے بلیٰ  کہا تھا؟ اگر نہیں تو پھر اُس اقرار کو جس کی یاد ہمارے شعور و حافظہ سے محو ہو چکی ہے ہمارے خلاف حجت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُس میثاق کا نقش انسان کے شعور اور حافظہ میں تازہ رہنے دیا جاتا تو انسان کا دنیا کی موجودہ امتحان گاہ میں بھیجا جانا سرے سے فضول ہو جاتا کیونکہ اس کے بعد تو اس آزمائشِ و امتحان کے کوئی معنی ہی باقی نہ رہ جاتے۔ لہٰذا اس نقش کو شعور و حافظہ میں تو تازہ نہیں رکھا گیا، لیکن وہ تحت الشعور(Sub-conscious mind )  اور وِجدان(Intuition ) میں یقیناً محفوظ ہے۔ اس کا حال وہی ہے جو ہمارے تمام دوسرے تحت الشعوری اور وجدانی  علوم کا حال ہے۔ تہذیب و تمدّن اور اخلاق و معلاملات کے تمام شعبوں میں انسان سے آج تک جو کچھ بھی ظہور میں آیا ہے وہ سب درحقیقت انسان کے اندر بالقوة(Potentially )  موجود تھا۔ خارجی محرکات اور داخلی تحریکات نے مل جل کر اگر کچھ کیا ہے تو صرف اتنا  کہ جو کچھ بالقوة تھا اُسے بالفعل کر دیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی تعلیم، کوئی تربیت ، کوئی ماحول تا ثیر  اور کوئی داخلی تحریک انسان کے اندر کوئی چیز بھی،  جو اُس کے اندر بالقوة موجود نہ ہو، ہر گز پیدا نہیں  کر سکتی۔ اور اسی طرح یہ سب موثرات اگر اپنا تمام زور بھی صرف کردیں تو ان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اُن چیزوں میں سے ، جو انسان کے اندر بالقوة موجود ہیں، کسی چیز کو قطعی محو کر دیں۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کر سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اسے اصل فطرت سے منحرف(Pervert )  کر دیں ۔ لیکن وہ چیز تمام تحریفات و تمسیخات کے باوجود اندر موجود رہے گی، ظہور میں آنے کے لیے زور لگاتی رہے گی، اور خارجی اپیل کا جواب دینے کے لیے مستعد رہے گی۔ یہ معاملہ جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا، ہمارے تمام تحت الشعوری اور وجدانی علوم کے ساتھ عام ہے:
وہ سب ہمارے اندر بالقوة موجود ہیں، اور ان کے موجود ہونے کا یقینی ثبوت اُن چیزوں سے ہمیں ملتا ہےجو بالفعل ہم سے ظاہر ہوتی ہیں۔
ان سب کے ظہو رمیں آنے کے لیے خارجی تذکیر (یاد دہانی)، تعلیم، تربیت اور تشکیل کی ضرورت ہوتی ہے ، اور جو کچھ ہم سے ظاہر ہوتا ہے وہ گویا درحقیقت خارجی اپیل کا وہ جواب ہے جو ہمارے اندر کی بالقوة موجودات کی طرف سے ملتا ہے۔
ان سب کو اندر کی غلط خواہشات اور باہر کی غلط تا ثیرات دبا کر، پردہ ڈال کر ، منحرف اور مسخ کر کے کالعدم کر سکتی ہیں مگر بالکل معدوم نہیں کر سکتیں، اور اسی لیے اندرونی احساس اور بیرونی سعی دونوں سے اصلاح اور تبدیلی(Conversion )  ممکن ہوتی ہے۔
ٹھیک ٹھیک یہی کیفیت اُس وجدانی علم کی بھی ہے جو ہمیں کائنات میں اپنی حقیقی حیثیت، اور خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں حاصل ہے:
اس موجود ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ وہ انسانی زندگی کے ہر دور میں، زمین کے ہر خطہ میں، ہر بستی، ہر پشت اور ہر نسل میں اُبھرتا  رہا ہے اور کبھی دنیا کی کوئی طاقت اسے محو کر دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
اس کے مطابقِ حقیقت ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب کبھی وہ اُبھر کر بالفعل ہماری زندگی میں کر فرما ہوا ہے اس نے صالح ار مفید نتائج ہی پیدا کیے ہیں۔
اس کو اُبھر نے اور ظہور میں آنے اور عملی صورت اختیار کرنے کے لیے ایک خارجی اپیل کی ہمیشہ ضروت رہی ہے ، چنانچہ انبیاء علیہم السلام اور کتبِ آسمانی  اور ان کی پیروی کرنے والے داعیانِ حق سب کے سب یہی خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔ اسی لیے اُن کو قرآن میں مذکِّر(یاد دلانے والے)ذِکر (یاد)تذکرہ(یادداشت) اور اب ان کے کام کوتذکیر(یاد دہانی)کے الفاظ سے تعبیر گیا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انبیاء اور کتابیں اور داعیانِ حق انسان کے اندر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتے بلکہ اُسی چیز کو اُبھارتے اور تازہ کرتے ہیں جو ان کے اندر پہلے سے موجود تھی۔
نفسِ انسانی کی طرف سے ہر زمانہ میں اِس تذکیر کا جواب بصورتِ لبیک ملنا اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ اندر فی الواقع کوئی علم چھپا ہوا تھا جو اپنے پکارنے والے کی آواز پہچان کر جواب دینے کے لیے اُبھر آیا۔
پھر اسے جہالت اور جاہلیت اور خواہشات نفس اور تعصبات اور شیا طینِ جن و انس کی گمراہ کن تعلیمات و ترغیبات نے ہمیشہ دبانے اور چھپانے اور منحرف اور مسخ کرنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں شرک، وہریت، الحاد ، زندقہ اور اخلاقی و عملی فساد رونما ہوتا رہا ہے۔ لیکن ضلالت کی ان ساری طاقتوں کے متحدہ عمل کے باوجود اس علم کا پیدائشی نقش انسان کی لوح دل پر کسی نہ کسی حد تک موجود رہا ہے اور اسی لیے تذکیر و تجدید کی کوششیں اُسے اُبھارنے میں کامیاب ہوتی رہی ہیں۔
بلاشبہ دنیا کی موجودہ زندگی میں حق اور حقیقت کے انکار پر مصر ہیں  وہ اپنی حجت بازیوں سے اس پیدائیشی نقش کے وجود کا انکار کر سکتے ہیں یا کم از کم اسے مشتبہ ثابت کر سکتے ہیں۔ لیکن جس روز یوم الحساب برپا ہو گا اس روز ان کا خالق ان کے شعور وحافظہ میں روزِ ازل کے اُس اجتماع کی یاد تازہ کر دے گا جبکہ انہوں نے اس کو اپنا واحد معبود اور واحد رب تسلیم کیا تھا۔ پھر وہ اس بات کا ثبوت بھی ان کے اپنے نفس ہی سے فراہم  کر دے گا  کہ اس میثاق کا نقش ان کے نفس میں برابر موجود رہا اور یہ بھی وہ ان کی اپنی زندگی ہی کے ریکارڈ سے علیٰ رؤس الا شہاد دکھاوے گا کہ انہوں نے کس کس طرح اس نقش کو دبایا، کب کب اور کن کن مواقع پر ان کے قلب سے تصدیق کی آوازیں اُٹھیں، اپنی اور اپنے گردوبیش کی گمراہیوں پر ان کے وجدان نے کہاں کہاں اور کس کس وقت صدائے انکار بلند کی، داعیانِ حق کی دعوت کا جواب دینے کے لیے ان کے اندر کا چھپا ہوا علم کتنی کتنی مرتبہ اور کس کس جگہ اُبھرنے پر آمادہ ہوا، اور پھر وہ اپنے تعصبات اور اپنی خواہشات نفس کی بنا پر کیسے کیسے حیلوں اور بہانوں سے اس کو فریب دیتے اور خاموش کر دیتے رہے۔ وہ وقت جبکہ یہ سارے راز فاش ہوں گے، حجت بازیوں کا نہ ہوگا بلکہ صاف صاف اقرار جرم کا ہوگا۔ اسی لیے قرآن مجید کہتا ہے کہ اس وقت مجرمین یہ نہیں کہیں گے کہ ہم جاہل تھے یا غافل تھے، بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہم کافر تھے۔ یعنی ہم نے جان بوجھ کر حق کا انکار کیا۔ وَ شَھِدُوْا عَلٓیٰ اَنْفُسِہِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْ ا کَا فِرِیْنَ     (الاَنعام، ۱۳۰