اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کر تے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو بر داشت نہ کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ اِن تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا ۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ |