حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب اوپر کے فقرے پر ختم ہو گیا تھا۔ اس کے بعد اب موقع کی مناسبت سے فورًا بنی اسرائیل کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کی دعوت دی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ تم پر خدا کی رحمت نازل ہونے کے لیے جو شرائط موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں عائد کی گئی تھیں وہی آج تک قائم ہیں اور دراصل یہ اُنہی شرائط کا تقاضا ہے کہ تم اِس پیغمبر پر ایمان لاؤ۔ تم سے کہا گیا تھا کہ خدا کی رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو نافرمانی سے پر ہیز کریں۔ تو آج سب سے بڑی بنیادی نا فرمانی یہ ہے کہ جس پیغمبر کو خدا نے مامور کیا ہے اس کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کیا جائے۔ لہٰذا جب تک اِس نافرمانی سے پرہیز نہ کر و گےتقویٰ کی جڑ ہی سرے سے قائم نہ ہوگی خواہ جزئیات و فروعات میں تم کتنا ہی تقویٰ بگھارتے رہو۔ تم سے کہا گیا تھا کہ رحمت ِ الہٰی سے حِصہ پانے کے لیے زکوٰة بھی ایک شرط ہے۔ تو آج کسی انفاق مال پر اُس وقت تک زکوٰة کی تعریف صادق نہیں آسکتی جب تک اقامتِ دینِ حق کی اُس جدوجہد کا ساتھ نہ دیا جائے جو اِس پیغمبر کی قیادت میں ہو رہی ہے۔ لہٰذا جب تک اِس راہ میں مال صرف نہ کرو گے زکوٰة کی بنیاد ہی استوار نہ ہو گی چاہے تم کتنی ہی خیرات اور نذرونیاز کرتے ہو۔ تم سے کہاگیا تھا کہ اللہ نے اپنی رحمت صرف اُن لوگوں کے لیے لکھی ہے جو اللہ کی آیات پر ایمان لائیں۔ تو آج جو آیات اس پیغمبر پر نازل ہو رہی ہیں ان کا انکار کرکے تم کسی طرح بھی آیات ِ الہٰی کے ماننے والے قرار نہیں پا سکتے۔ لہٰذا جب تک اِن پر ایمان نہ لاؤ گے یہ آخری شرط بھی پوری نہ ہو گی خواہ توراة پر ایمان رکھنے کا تم کتنا ہی دعوٰی کرتے رہو۔ |