اس رکوع کو چھاپیں

سورة الاعراف حاشیہ نمبر١۰۷

 یہ اُس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ۔یعنی  ان کے دلوں  میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا۔سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ،  اِن لوگوں کا بخیریت اُس بندِ غلامی سے نِکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی اُمید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کِسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا  ئیل نے اپنی قوم کو اُس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا  ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل  میں بھی بے وفائی  سے نہ چُوکی ہو۔