اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۵۹

پچھلے سلسلہ ٔ بیان اور بعد کی جوابی تقریر سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ قول یہودیوں کا تھا۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ یہ تھا کہ  میں نبی ہوں اور مجھ پر کتاب نازل ہوئی ہے ، اس لیے قدرتی طور پر کفار قریش اور دُوسرے مشرکینِ عرب اس دعوے کی تحقیق کے لیے یہُود و نصاریٰ کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے پُوچھتے تھے کہ تم بھی اہل ِ کتاب ہو، پیغمبروں کو مانتے ہو، بتاؤ کیا واقعی اس شخص پر اللہ کا کلام نازل ہوا ہے؟ پھر جو کچھ  جواب  وہ دیتے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سرگرم مخالفین جگہ جگہ بیان کرکے لوگوں کو برگشتہ کرتے پھرتے تھے۔ اسی لیے یہاں یہودیوں کے اس قول کو، جسے مخلافینِ اسلام نے حجّت بنا رکھا تھا ، نقل کر کے اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔

شُبہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک یہودی جو خود توراۃ کو خدا کی طرف سے نازل شدہ کتاب مانتا ہے، یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل  نہیں کیا۔ لیکن یہ شُبہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر  بسا اوقات آدمی کسی دُوسرے کی سچّی باتوں کو رد کرنے کے لیے ایسی باتیں بھی کہہ جات اہے جن سے کود اس کی اپنی مسلَّمہ صداقتوں پر بھی زد پڑ جاتی ہے ۔ یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت کو رد کرنے پر تُلے ہوئے تھے اور اپنی مخالفت کے جوش میں اس قدر اندھے ہو جاتے تھے کہ حضور ؐ  کی رسالت کی تر دید کرتے کرتے خود رسالت ہی کی تردید کر گزرتے تھے۔

 اور یہ جو فرمایا  کہ لوگوں نے اللہ کا بہت غلط اندازہ لگایا  جب یہ کہا ، تو اس کامطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کی حکمت اور اس کی قدرت کا اندازہ کرنے میں غلطی کی ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ خدا نے کسی بشر پر علم حق اور ہدایت نامۂ زندگی نازل نہیں کیا ہے وہ یا تو بشر پر نزُولِ وحی کو ناممکن سمجھتا ہے اور یہ خدا کی قدرت  کا غلط اندازہ  ہے ، یا پھر وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا نے انسان کو ذہانت کے ہتھیار اور تصرّف کے اختیارات تو دے دیے مگر اس کی صحیح رہنمائی کا کوئی انتظام نہ کیا، بلکہ اسے دُنیا میں اندھا دُھند کام کرنے کے لیے یُونہی چھوڑ دیا ، اور یہ خدا کی حکمت کا غلط اندا زہ ہے۔