اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۵۰

یہاں حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ کا ذکر اس امر کی تائید اور شہادت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ جس طرح اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ ؐ کے ساتھیوں نے شرک کا انکار کیا ہے اور سب مصنوعی خداؤں سے منہ موڑ کر صرف ایک مالکِ کائنات کے آگے سرِ اطاعت خم کر دیا ہے اسی طرح کل یہی کچھ ابراہیم ؑ بھی کر چکے ہیں۔ اور جس طرح آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان پر ایمان لانے والوں  سے ان کی جاہل قوم جھگڑ رہی ہے اسی طرح کل حضرت ابراہیم ؑ سے بھی ان کی قوم یہی جھگڑا کر چکی ہے۔ اور کل جو جواب حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو دیا تھا آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے پیرووں کی طرف سے ان کی قوم کو بھی وہی جواب ہے ۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس راستہ پر ہیں جو نوح ؑ اور ابراہیم ؑ اور نسلِ ابراہیمی کے تمام انبیاء کا راستہ رہا ہے۔ اب جو لوگ ان کی پیروی سے انکار  کر رہے ہیں انھیں معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ انبیاء کے طریقہ سے ہٹ کر ضلالت کی راہ پر جا رہے ہیں۔

یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ عرب کے لوگ بالعموم حضرت ابراہیم ؑ  کو اپنا پیشوا اور مقتدا مانتے تھے  ۔ خصُوصاً قریش کے تو فخر و ناز کی ساری بُنیاد ہی یہ تھی کہ وہ ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد اور ان کے تعمیر کردہ خانۂ خدا کے خادم ہین۔ اس لیے ان کے سامنے حضرت ابراہیم ؑ کے عقیدۂ توحید کا اور شرک سے اُن کا انکار اور مشرک قوم سے اُن کی نزاع کا ذکر کرنے کے معنی یہ تھے کہ قریش کا سارا سرمایۂ فخر و ناز اور کفارِ عرب کا اپنے مشرکانہ دین پر سالا اطمینان ان سے چھین لیا جائے اور اُن پر ثابت کر دیا جائے کہ آج مسلمان اُس مقام پر ہیں جس پر حضرت ابراہیم ؑ تھے اور تمہاری حیثیت وہ ہے جو حضرت ابراہیم ؑ سے لڑنے والی جاہل قوم کی تھی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شیخ عبدالقادر جیلانی   ؒ کے معتقدوں اور قادری النسب پیرزادوں کے سامنے حضرت شیخ کی اصل تعلیمات اور ان کی زندگی کے واقعات پیش کر کے یہ ثابت کر دے کہ جن بزرگ کے تم نام لیوا ہو، تمہارا اپنا طریقہ ان کے بالکل خلاف ہے اور تم نے آج انہی گمراہ لوگوں کی حیثیت اختیار کر لی ہے جن کے خلاف تمہارے مقتدا تمام عمر جہاد کرتے رہے۔