اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۲۸

خدا کا بھٹکانا یہ ہے کہ ایک جہالت پسند انسان کو آیاتِ الہٰی کے مطالعہ کی توفیق  نہ بخشی جائے ، اور ایک متعصّب غیر حقیقت پسند طالب علم اگر آیاتِ الہٰی کا مشاہدہ کرے بھی تو حقیقت رسی کے نشانات اس کی آنکھ سے اوجھل رہیں اور غلط فہمیوں میں اُلجھا  نے والی چیزیں اسے حق سے دُور اور دُور تر کھینچتی چلی جائیں۔ بخلاف اس کے اللہ کی ہدایت  یہ ہے کہ ایک طالبِ حق کو علم کے ذرائع سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق بخشی جائے اور اللہ کی آیات میں اسے حقیقت تک پہنچنے کے نشانات ملتے چلے جائیں۔ ان تینوں کیفیات کی بکثرت مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں ۔ بکثرت انسان ایسے ہیں جن کے سامنے آفاق اور اَنفُس میں اللہ کی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ جانوروں کی طرح انہیں دیکھتے ہیں اور کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ اور بہت سے انسان ہیں جو حیوانیات(Zoology)، نباتیات(Botany)، حیَاتیات(Biology)، ارضیات(Geology)، فلکیات(Astronomy)، عضویات (Physiology)، علم التشریح(Anatomy) اور سائنس کی دُوسری شاخوں کا مطالعہ کرتے ہیں ، تاریخ ، آثارِ قدیمہ اور عُلُومِ اجتماع (Social Science)  کی تحقیق کرتے ہیں اور ایسی ایسی نشانیاں ان کے مشاہدے میں آتی ہیں جو قلب کو ایمان سے لبریز کر دیں۔ مگر چونکہ وہ مطالعہ کا آغاز ہی تعصّب کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کے پیشِ نظر دنیا اور اس کے فوائد و منافع کے سوا کچھ نہیں ہوتا اس لیے اس مشاہدے کے دَوران میں ان کو صداقت تک پہنچانے والی کوئی نشانی نہیں ملتی، بلکہ جو نشانی بھی سامنے آتی ہے وہ انھیں اُلٹی دہریّت ، الحاد، مادّہ پرستی اور نیچر یّت ہی کی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔ ان کے مقابلہ میں ایسے لوگ بھی  ناپید نہیں ہیں جو آنکھیں کھول کر اس کارگاہِ عالم کو دیکھتے ہیں اور ان کا حال یہ ہے کہ :

برگِ  درختانِ  سبز   در نَظَرِ ہوشیار

ہر ورقے دفریست  معرفتِ کردگار