اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۱۳۴

”اللہ کے عہد“ سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔

پہلے دونوں عہد شعوری اور ارادی ہیں، اور یہ تیسرا عہد ایک فطری عہد (Natural Contarct)  ہے، جس کے باندھنے میں اگر چہ انسان کے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے، لیکن واجب الاحترام ہونے میں یہ دونوں عہدوں سے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ کسی شخص کا خدا کے بخشے ہوئے وجود سے ، اس کی عطاء کی ہوئی جسمانی و نفسیاتی قوتوں سے، اس کے دیے ہوئے جسمانی آلات سے، اور اس کی پیدا کی ہوئی زمین اور رزق اور ذرائع سے فائدہ اٹھانا، اور ان مواقع زندگی سے متمتع ہونا جو قوانین قدرت کی بدولت فراہم ہوتے ہیں، خود بخود فطرتاً خدا کے کچھ حقوق اس پر عائد کردیتا ہے۔ اور اسی طرح   آدمی کا ایک ماں کے پیٹ میں اس کے خون سے پرورش پانا، ایک باپ کی محنتوں سے بسے ہوئے گھر میں پیدا ہونا، اور ایک اجتماعی زندگی کے بے شمار مختلف اداروں سے مختلف صورتوں میں متمتع ہونا، علیٰ قدرِ مراتب اس کے ذمے بہت سےا فراد  اور اجتماعی اداروں کے حقوق بھی عائد کردیتا ہے ۔ انسان کا خدا سے اور انسان کا سو سائٹی سے یہ عہد کسی کاغذ پر نہیں لکھا گیا، مگر اس کے رونگٹے رونگٹے پر ثبت ہے۔انسان نے اسے شعور اور ارادہ کے ساتھ نہیں باندھا، مگر اس کا پورا وجود اسی عہد کا رِہنِ منّت ہے۔ اسی عہد کی طرف  سورۃ البقرۃ آیت  ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فاسق وہ ہیں جو”اللہ کے عہد کو اس کی استواری کے بعد توڑتے ہیں، اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں“۔ اور اسی کا ذکر آگے چل کر سورۃ الاعراف آیت ۱۷۲ میں آتا ہے کہ اللہ نے ازل میں آدمؑ کی پیٹھوں سے ان کی ذرّیّت کو نکال کر ان سے شہادت طلب کی تھی کہ کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اور انھوں نے اقرار کیا تھا کہ ہاں، ہم گواہ ہیں۔