اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر١۰۷

یہاں”شریکوں“ کا لفظ ایک دُوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے  جو اُوپر کے معنی سےمختلف ہے۔ اوپر کی آیت میں جنھیں ”شریک“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا وہ ان کے معبُود تھے جن کی برکت یا سفارش یا توسّط کو یہ لوگ نعمت کے حصُول میں مددگار سمجھتے تھے اور شکرِ نعمت کے استحقاق میں انھیں خدا کے ساتھ حصّہ دار بناتے تھے۔ بخلاف اس کے اس آیت میں ”شریک“ سے مراد وہ انسان اور شیطان ہیں جنھوں نے قتلِ اولاد کو ان لوگوں کی نگاہ میں ایک جائز اور پسندیدہ فعل بنا دیا تھا۔ انھیں شریک کہنے کی وجہ  یہ ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے جس طرح پرستش کا مستحق تنہا اللہ تعالیٰ ہے ، اسی طرح بندوں کے لیے قانون بنانے اور جائز و ناجائز کی حدیں مقرر کرنے کا حق دار بھی صرف اللہ ہے۔ لہٰذا جس طرح کسی دُوسرے کے آگے پرستش کے افعال میں سے کوئی فعل کرنا اسے خدا کا شریک بنانے کا ہم معنی ہے، اسی طرح کسی کے خود ساختہ قانون کو برحق سمجھتے ہوئے اس کی پابندی کرنا اور اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کو واجب الاطاعت ماننا بھی اسے خدائی میں اللہ کا شریک قرار دینے کا ہم معنی ہے۔ یہ دونوں افعال بہرحال شریک ہیں، خواہ اُن کا مرتکب ان ہستیوں کو زبان سے الٰہ اور ربّ کہے یا نہ کہے جن کے آگے وہ نذر و نیاز پیش کرتا ہے یا ج ن کے مقرر کیے ہوئے قانون کو واجب الاطاعت مانتا ہے۔

قتل ِ اولاد کی تین صُورتیں اہلِ عرب میں رائج تھیں اور قرآن میں تینوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:

(۱) لڑکیوں کا قتل، اس خیال سے کہ کوئی ان کا داماد نہ بنے، یا قبائلی لڑائیوں میں وہ دُشمن کے ہاتھ نہ پڑیں ، یا کسی دُوسرے سبب سے وہ ان کے لیے سبب عار نہ بنیں۔

(۲) بچّوں کا قتل ، اس خیال سے کہ ان کی پرورش کا بار نہ اُٹھایا جا سکے گا اور ذرائع معاش کی کمی کے سبب سے وہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائیں گے۔

(۳) بچّوں کو اپنے معبُودوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھانا۔