اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر١۰۵

اِس بات کے وہ خود قائل تھے کہ زمین اللہ کی ہے اور کھیتیاں وہی اُگاتا ہے۔ نیز اُن جانوروں کا خالق بھی  اللہ ہی ہے جن سے وہ اپنی زندگی میں خدمت لیتے ہیں۔ لیکن ان کا تصوّر یہ تھا کہ ان پر اللہ کا یہ فضل اُن دیویوں اور دیوتاؤں اور فرشتوں اور جِنّات ، اور آسمانی ستاروں اور بزرگانِ سلف کی ارواح کے طفیل و برکت سے ہے جو ان پر نظر ِ کرم رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنے کھیتوں کی پیداوار اور اپنے جانوروں میں سے دو حصّے نکالتے تھے۔ ایک حِصّہ اللہ کے نام کا، اس  شکریہ میں کہ اس نے یہ کھیت اور یہ جانور انھیں بخشے۔ اور دُوسرا حصّہ اپنے قبیلہ اور خاندان کے سرپرست معبُودوں کی نذر و نیاز کا تاکہ اُن کی مہربانیاں ان کے شامِل حال رہیں۔ اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے اسی ظلم پر گرفت فرماتا ہے کہ یہ سب مویشی ہمارے پیدا کیے ہوئے اور ہمارے عطا کردہ ہیں، ان میں یہ دُوسروں کی نذر و نیاز کیسی؟ یہ نمک حرامی نہیں تو کیا ہے کہ تم اپنے محسن کے احسان کو، جو اس نے سراسر خود اپنے فضل و کرم سے تم پر کیا ہے ، دُوسروں کی مداخلت اور ان کے توسّط کا نتیجہ قرار دیتے ہو اور شکریہ کے استحقاق میں انھیں اُس کے ساتھ شریک کرتے ہو۔ پھر اشارۃً دُوسری گرفت اس بات پر بھی فرمائی ہے کہ یہ اللہ کا حصّہ جو انھوں نے مقرر کیا ہے یہ بھی بزعمِ خود کر لیا ہے، اپنے شارع  خود بن بیٹھے ہیں ، آپ ہی جو حصّہ چاہتے ہیں اللہ کے لیے مقر کر لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں دُوسروں کے لیے طے کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اپنی بخشش کا اصل مالک و مختار خود اللہ ہے اور یہ بات اسی کی شریعت کے مطابق طے ہونی چاہیے کہ اس بخشش میں سے کتنا حصّہ اس کے شکریہ کے لیے نکالا جائے اور باقی میں کون کون حق دار ہیں۔  پس درحقیقت اس خودمختارانہ طریقہ سے جو حصّہ یہ لوگ اپنے زعمِ باطل میں خدا کے لیے نکالتے ہیں اور فقراء و مساکین وغیرہ پر خیرات کرتے ہیں وہ بھی کوئی نیکی نہیں ہے۔ خدا کے ہاں اس کے مقبول ہونے کی بھی کوئی وجہ  نہیں۔