اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانعام حاشیہ نمبر۱

یاد رہے کہ مخاطب وہ مشرکین عرب ہیں جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے، وہی دن نکالتا اور رات  لاتا ہے اور اسی نے آفتاب و ماہتاب کو وجود بخشا ہے۔ ان میں سے کسی کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ یہ کام لات یا ہُبل یا عُزّیٰ یا کسی اَور دیوی یا دیوتا کے ہیں۔ اس لیے ان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ نادانو! جب تم خود یہ مانتے  ہو کہ زمین و آسمان کا خالق اور گردش لیل و نہار کا فاعل اللہ ہے تو یہ دُوسرے کون ہوتے ہیں کہ ان کے سامنے سجدے کرتے ہو، نذریں اور نیاز یں چڑھاتے ہو، دُعائیں مانگتے ہو اور اپنی حاجتیں پیش کرتے ہو۔ (ملاحضہ ہو سُورۂ فاتحہ حاشیہ نمبر ۲سُورۂ بقرہ حاشیہ نمبر ۱۶۳)

روشنی کے مقابلہ میں تاریکیوں کو بصیغۂ جمع بیان  کیا گیا ، کیونکہ تاریکی نام ہے عدمِ نور کا اور عدم نور کے بیشمار مدارج ہیں۔ اس لیے نور واحد ہے اور تاریکیاں بہت ہیں۔