اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۹۷

توراۃ اور انجیل کو قائم کرنے سے مراد راست بازی کے ساتھ ان کی پَیروی کرنا اور انہیں اپنا دستورِ زندگی بناتا ہے۔ اِس موقع پر یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بائیبل کے مجمُوعہ کتب مقدسہ میں ایک قسم کی عبارات تو وہ ہیں جو یہودی اور عیسائی مصنّفین نے بطورِ خود لکھی ہیں۔ اور دُوسری قسم کی عبارات وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات یا حضرت موسیٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ اور دُوسرے پیغمبروں کے اقوال ہونے کی حیثیت سے منقول ہیں اور جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ نے ایسا فرمایا یا فلاں نبی نے ایسا کہا۔ ان میں سے پہلی قسم کی عبارات کو الگ کر کے اگر کوئی شخص صرف دُوسری قسم کی عبارات کا تَتَبُّع کرے تو بآسانی یہ دیکھ سکتا ہے کہ  ان کی  تعلیم اور قرآن کی تعلیم میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہے۔ اگرچہ مترجموں اور ناسخوں اور شارحوں کی دراندازی سے، اور بعض جگہ زبانی راویوں کی غلطی سے ، یہ دُوسری قسم کی عبارات بھی پُوری طرح محفوظ نہیں رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود کوئی شخص یہ محسُوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا  کہ ان میں بعینہہ اسی خالص توحید کی دعوت دی گئی ہے جس کی طرف قرآن بُلا رہا ہے، وہی عقائد پیش کیے گئے ہیں جو قرآن پیش کرتا ہے اور اسی طریقِ زندگی کی طرف رہنمائی کی گئی ہے جس کی ہدایت قرآن دیتا ہے۔ پس حقیقت یہ ہے کہ اگر یہُودی اور عیسائی اُسی تعلیم پر قائم رہتے جو اِن کتابوں میں خدا اور پیغمبروں کی طرف سے منقول ہے تو یقیناّ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت وہ ایک حق پرست اور راست رَو گروہ پائے جاتے اور انہیں قرآن کے اندر وہی روشنی نظر آتی جو پچھلی کتابوں میں پائی جاتی تھی۔ اس صُورت میں ان  کے لیے نبی صلی علیہ وسلم کی پَیروی اختیار کرنے میں تبدیلِ مذہب کا سرے سے کوئی سوال پیدا ہی نہ ہوتا بلکہ وہ اُسی راستہ کے تسلسل میں، جس پر وہ پہلے سے چلے آرہے تھے، آپ کے متبع بن کر آگے چل سکتے تھے۔