اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر٦۲

یعنی جن کی ذہانتیں اور سرگرمیاں ساری کی ساری اس کوشش میں صرف ہو رہی ہیں کہ جاہلیت کی جو حالت پہلے سے چلی آرہی ہے وہی برقرار  رہے اور اسلام کی یہ اصلاحی دعوت اُس بگاڑ کو درست کرنے میں کامیاب نہ ہونے پائے۔ یہ لوگ  تمام اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی رکیک سے رکیک چالیں چل رہے تھے۔ جان بُوجھ کر حق نِگل رہے تھے۔ نہایت بے باکی و جسارت کے ساتھ جھُوٹ ، فریب ، دغا اور مکر کے ہتھیاروں سے اُس پاک  انسان کے کام کو شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے جو کام بے غرضی کے ساتھ سراسر خیر خواہی کی بنا پر عام انسانوں کی اور خود اُن کی فلاح و بہبُود کے لیے شب و روز محنت کر رہا تھا۔ اُن کی اِن حرکات کو دیکھ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل کُڑھتا تھا ، اور یہ کُڑھنا بالکل فطری امر تھا۔ جب کسی پاکیزہ انسان کو پست اخلاق لوگوں سے سابقہ پیش آتا ہے اور وہ محض اپنی جہالت اور خود غرضی و تنگ نظری کی بنا پر  اس کی  خیر خواہانہ مساعی کو روکنے کے لیے گھٹیا درجہ کی چال بازیوں سے کام لیتے  ہیں تو فطرۃً اُس کا دل  دُکھتا ہی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ نہیں ہے کہ اِن حرکات پر جو فطری رنج آپ کو ہوتا ہے وہ نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ منشاء دراصل یہ ہے کہ اس سے آپ دل شکستہ نہ ہوں، ہمت نہ ہاریں، صبر کے ساتھ بندگانِ خدا کی اصلاح کے لیے کام کیے چلے جائیں۔ رہے یہ لوگ، تو جس قسم کے ذلیل اخلاق انہوں نے اپنے اندر پرورش کیے ہیں اُن کی بنا پر یہ روش ان سے عین متوقع ہے، کوئی چیز اِن کی اس روش  میں خلاف توقع نہیں ہے۔