اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر٦۰

دونوں ہاتھ نہیں بلکہ ایک ہاتھ۔ اور اُمّت کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ پہلی چوری پر سیدھا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھِ فرمائی ہے کہ لا قطع علیٰ خَائنٍ۔ اس سے معلوم ہوا کہ سرقہ کا اطلاق خیانت وغیرہ پر نہیں ہوتا بلکہ صرف اِس فعل پر ہوتا ہے کہ آدمی کسی کے مال کو اس کی حفاظت سے نکال کر اپنے قبضہ میں کر لے۔

                پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ ایک ڈھال کی قیمت سے کم کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے ۔ ایک ڈھال کی قیمت نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ میں بروایت عبداللہ بن عباس ؓ  دس درہم ، بروایت ابن عمر ؓ  تین درہم، بروایت انس بن مالک ؓ پانچ درہم اور بروایت حضرت عائشہ ؓ ایک چوتھائی دینار ہوتی تھی۔ اسی اختلاف کی بنا پر فقہا کے درمیان کم سے کم نصابِ سرقہ میں اختلاف ہوا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ  کے نزدیک سرقہ کا نصاب دس درہم ہے اور امام مالک ؒ شافعی ؒ اور احمد ؒ کے نزدیک چوتھائی دینار۔ (اُس زمانہ  کے درہم میں تین ماشہ ۱- ۱/۵ رتی چاندی ہوتی تھی۔ اور ایک چوتھا ئی دینار ۳ درہم کے برابر تھا)۔

(پھر بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ دی جائے گی۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے کہ  لا قطع فی ثمرۃ ولا کثر( پھل اور ترکاری کی چوری میں ہاتھ نہ کاٹا جائے)۔ لاقطع فی طعام( کھانے کی چوری میں قطعِ ید  نہیں ہے۔)۔ اور حضرت عائشہ ؓ  کی حدیث ہے کہ  لم یکن قطع السارق علی عھد رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الشئ التافہ(حقیر چیزوں کی چوری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تھا)۔ حضرت علی  ؓ اور حضرت عثمان ؓ  کا فیصلہ ہے  اور صحابہ کرام میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا کہ لا قطع فی الطّیر( پرندے کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے)۔  نیز سیّدنا عمر  و علی رضی اللہ عنہما نے بیت المال سے چوری کرنے والے کا ہاتھ بھی نہیں کاٹا اور اس معاملہ میں بھی صحابہ کرام میں سے کسی  کا اختلاف منقول نہیں ہے۔ اِن مآخذ کی بُنیاد پر مختلف ائمہ فقہ نے مختلف چیزوں کو قطعِ ید کے حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ  کے نزدیک ترکاریاں ، پھل ، گوشت ، پکا ہوا کھانا، غلّہ جس کا ابھی کھلیان نہ کیا گیا ہے، کھیل اور گانے بجانے کے آلات وہ چیزیں ہیں کن کی چوری  میں قطعِ ید کی سزا نہیں ہے۔ نیز جنگل میں چَرتے ہوئے جانوروں کی چوری اور بیت المال کی چوری میں  بھی وہ قطعِ ید کے قائل نہیں ہیں۔ اِسی طرح دُوسرے ائمّہ  نے بھی بعض چیزوں کو اس حکم سے مستثنٰی قرار دیا ہے ۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اِن چوریوں پر سرے سے کوئی سزا ہی نہ دی جائے گی۔ مطلب یہ ہے کہ ان جرائم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔