اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۵۵

(زمین سے مراد یہاں وہ مُلک یا وہ علاقہ ہے جس میں امن و انتظام قائم کرنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے لے رکھی ہو۔ اور خدا و رسول سے لڑنے کا مطلب  اُس نظامِ صالح کے خلاف جنگ کرنا ہے جو اسلام کی حکومت نے ملک میں قائم کر رکھا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے  اور اسی کے لیے اس نے اپنا رسول بھیجا تھا کہ زمین میں ایک ایسا صالح نظا م قائم ہو جو انسان اور حیوان اور درخت اور ہر اُس چیز کو جو زمین پر ہے، امن بخشے، جس کے تحت انسانیت اپنی فطرت کے کمال مطلوب کو پہنچ سکے،جس کے تحت زمین کے وسائل اس طرح استعمال کیے جائیں کہ وہ انسان کی ترقی میں مددگار ہوں  نہ کہ اس کی تباہی و بربادی میں۔ ایسا نظام جب کسی سر زمین میں قائم ہو جائے تو اس کو خراب کرنے کی سعی کرنا، قطع نظر اس سے کہ وہ چھوٹے پیمانے پر قتل و غارت اور رہزنی  و ڈکیتی کی حد تک ہو یا بڑے پیمانے پر اس صالح نظام کو اُلٹنے اور اس کی جگہ کوئِ فاسد نظام قائم کردینے کے لیے ، دراصل وہ خدا اور اس کے  رسُول ؐ کے خلاف جنگ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے تعزیراتِ ہند میں ہر اُس شخص کو جو ہندوستان کی برطانوی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کرے” بادشاہ کے خلاف لڑائی“(Waging war against the King) کا مجرم قرار دیا گیا ، چاہے اس کی کاروائی ملک کے کسی دُور دراز گوشے میں ایک معمُولی سپاہی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور بادشاہ اس کی دست رس سے کتنا ہی دُور ہو۔