اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر۲۲

اِس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں۔ نکاح کی اجازت صرف انہی کی عورتوں سے دی گئی ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ لگا دی گئی ہے کہ و ہ مُحصنَات (محفوظ عورتیں) ہوں۔ اس حکم کی تفصیلات میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے۔ ابنِ عباس ؓ کا خیال ہے کہ یہاں اہلِ کتاب سے مُراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو اسلامی حکومت کی رعایا ہوں۔ رہے دار الحرب اور دارالکفر کے یہود و نصاریٰ ، توان کی عورتوں سے نکاح کرنا درست نہیں۔ حنفیّہ اس سے تھوڑا اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بیرونی ممالک کے اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کرنا  حرام تو نہیں ہے مگر مکرُوہ ضرور ہے۔ بخلاف اس کے سعید بن المُسَیِّب ؒ  اور حَسَن بصری ؒ اس کے قائل ہیں کہ آیت اپنے حکم میں عام ہے لہٰذا ذمّی اور غیر ذمّی میں فرق کرنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مُحصَنات کے مفہُوم میں بھی فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت عمر ؓ  کے نزدیک اس سے مراد پاک دامن ، عصمت مآب عورتیں ہیں اور اس بنا پر وہ اہلِ کتاب کی آزادمنش عورتوں کو اس اجازت سے خارج قرار دیتے ہیں۔ یہی رائے حسن ؒ، شَعبِیؒ اور ابراہیم نَخعَی ؒ کی ہے۔ اور حنفیہ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے۔ بخلاف اس کے امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ یہاں یہ لفظ لونڈیوں کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، یعنی اس سے مراد اہلِ کتاب کی وہ عورتیں ہیں جو لونڈیاں نہ ہوں۔