اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١۸

اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیّت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیّت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلا ل اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنےلگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنُوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیّت کی اصلاح کرتا ہے۔ پُوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلا ل ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجُز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصُول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وُسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حِلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت  کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلا ل ہو گئی۔

حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جُو چیزیں اُصُولِ شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذّب انسان نے  بالعمُوم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے۔