اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے
کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیُود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں
اُن کی اصل بُنیاد اُن اشیاء کے طبّی فوائد یا نقصانات
نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی
اُمُور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور
کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا
اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غزائے صالح بہم
پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ
ہیں۔ شریعت اِن اُمُور میں اس کی رہنمائی کی ذمّہ داری
اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمّہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے
سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس
کا، یا اُن دُوسرے مفردات و مرکبّات کا ، جو انسان کے لیے سخت مُہلک ہیں،
سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز
پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق
پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کونسی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ،
اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے
صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور
اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسّر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر
انسان نے اکثر اِن اُمُور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنہی
اُمُور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں
اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا بُرا اثر پڑتا ہے، یا وہ
طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن
چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حِلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن بُرائیوں
میں سے کوئی بُرائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ |