اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١۲۸

چونکہ حواریوں کا ذکر آگیا تھا اس لیے سلسلہء کلام کو توڑ کر جملہء معترضہ کے طور پر یہاں حواریوں ہی کے متعلق ایک اور واقعہ کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح سے براہِ راست جن  شاگردوں نے تعلیم پائی تھی وہ مسیح کو ایک انسان اور محض ایک بندہ سمجھتے تھے اور ان کے وہم و گمان میں بھی اپنے مرشد کے خدا یا شریکِ خدا  یا فرزندِ  خدا ہونے کا تصوّر نہ تھا ۔ نیز یہ کہ مسیح نے خود بھی اپنے آپ کو ان کے سامنے ایک بندۂ بے اختیار کی حیثیت سے پیش کیا تھا۔

یہاں یہ سوال کی جا سکتا ہے کہ جو گفتگو قیامت کے روز ہونے والی ہے ، اس کے اندر اس  جملۂ معتر ضہ کا کونسا موقع ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جملۂ معترضہ اُس گفتگو سے متعلق نہیں ہے جو قیامت کے روز ہو گی بلکہ اُس کی اس پیشگی حکایت سے متعلق ہے جو اس دنیا میں کی جا رہی ہے ۔ قیامت کی اس ہونے والی گفتگو کا ذکر یہاں کیا ہی اس لیے جا رہا ہے کہ موجودہ زندگی میں عیسائیوں کو اُس سے سبق ملے اور وہ راہِ راست پر آئیں۔ لہٰذا اس گفتگو کے سلسلہ میں حواریوں کے اس واقعہ کا ذکر بطور ایک جملۂ معترضہ کے آنا  کسی طرح غیر متعلق نہیں ہے۔