اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١١۹

یعنی بجائے  اس کے کہ آدمی ہر وقت یہ دیکھتا رہے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور فلاں کے عقیدے میں کیا  خرابی ہے اور فلاں کے اعمال میں کیا بُرائی ہے ، اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ خود  کیا کر رہا ہے ۔ اسے فکر اپنے خیالات کی، اپنے اخلاق اور اعمال کی ہونی چاہیے کہ وہ کہیں خراب نہ ہوں۔ اگر آدمی خود اللہ کی اطاعت کر رہا ہے، خدا اور بندوں کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انہیں ادا کر رہا ہے ، اور راست  روی و راست بازی کی مقتضیا ت پُورے کر رہا ہے، جن میں لازماً امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی شامل  ہے، تو یقیناً کسی شخص کی گمراہی و کج روی اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتی۔

اِس آیت کا یہ منشاء ہر گز نہیں ہے کہ آدمی بس اپنی نجات کی فکر کرے، دُوسروں کی اصلاح کی فکر نہ کرے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس غلط فہمی کی تردید کرتے ہوئے اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں: ”لوگو! تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور اس کی غلط تاویل کرتے ہو ۔ میں نے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ جب لوگوں کا حال یہ ہوجائے کہ وہ بُرائی کو دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس  کا ہاتھ نہ پکڑیں ، تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور بُرائی سے روکو، ورنہ اللہ تم  پر ایسے  لوگوں کو مسلّط کر دے گا جو تم میں سب سے بدتر ہوں گے  اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہنچائیں گے، پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دُعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوں گی۔