نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض لوگ عجیب عجیب قسم کے
فضول سوالات کیا کرتے تھے جن کی نہ دین کے کسی معاملہ میں ضرورت ہوتی تھی
اور نہ دُنیا ہی کے کسی معاملہ میں۔ مثلاً ایک موقع پر ایک صاحب بھرے مجمع
میں آپ ؐ سے پُوچھ بیٹھے کہ”میرا اصلی باپ کون ہے؟“ اسی
طرح بعض لوگ احکامِ شرع میں غیر ضروری پُوچھ گچھ کیا
کرتے تھے ، اور خواہ مخواہ پُوچھ پُوچھ کر ایسی چیزوں کا تعیّن کیا کرا نا
چاہتے تھے جنہیں شارع نے مصلحتاً غیر معیّن رکھا ہے۔ مثلاً قرآن میں
مُجملاً یہ حکم دیا گیا تھا کہ حج تم پر فرض کیا گیا ہے۔ ایک صاحب نے حکم
سُنتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا” کیا ہر سال فرض کیا گیا
ہے؟“ آپ ؐ نے کچھ جواب نہ دیا ۔ اُنہوں نے پھر پُوچھا۔ آپ ؐ پھر خاموش
ہوگئے۔ تیسری مرتبہ پُوچھنے پر آپ ؐ نے فرمایا”تم پر افسوس ہے ۔ اگر میری
زبان سے ہاں نِکل جائے تو حج ہر سال فرض قرار پائے۔ پھر تم ہی لوگ اس کی
پیروی نہ کر سکو گے اور نا فرمانی کرنے لگو گے“۔ ایسے ہی لا یعنی اور غیر
ضروری سوالات سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے۔ |