اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١١۳

عرب میں کعبہ کی حیثیت محض ایک مقدّس عباد ت گاہ ہی کی نہ تھی بلکہ اپنی مرکزیّت اور اپنے تقدس کی وجہ سے وہی پُورے ملک کی معاشی و تمدّنی زندگی کاسہارا بنا ہوا تھا۔ حج اور عُمرے کے لیے سارا ملک اُس کی طرف کھِنچ کر آتا تھا اور اس اجتماع کی بدولت انتشار کے مارے ہوئے عربوں میں وحدت کا ایک رشتہ پیدا ہوتا، مختلف علاقوں اور قبیلوں کے لوگ باہم تمدّنی روابط قائم کرتے، شاعری کے مقابلوں سے ان کی زبان اور ادب کو ترقی نصیب ہوتی، اور تجارتی لین دین سے سارے ملک کی معاشی ضروریات پوری ہوتیں۔ حرام مہینوں کی بدولت عربوں کو سال کا پُورا ایک تہائی زمانہ امن کا نصیب ہو جاتا تھا۔ بس یہی زمانہ ایسا تھا جس میں ان کے قافلے ملک کے ایک سرے سے  دوسرے سرے تک بسہُولت آتے جاتے تھے۔ قربانی کے جانوروں اور قلادوں کی موجودگی سے بھی اس نقل و حرکت میں بڑی مدد ملتی تھی ، کیونکہ نذر کی علامت کے طور پر جن جانوروں کی گردن میں پٹے پڑے ہوتے انہیں دیکھ کر عربوں کی گردنیں احترام سے جُھک جاتیں اور کسی غارت گر قبیلے کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جُرأت نہ ہوتی۔