اس رکوع کو چھاپیں

سورة المائدہ حاشیہ نمبر١۰۹

اِس آیت میں چار چیزیں قطعی طور پر حرام کی گئی ہیں۔ ایک شراب۔ دوسرے قمار بازی ۔ تیسرے وہ مقامات جو خدا کے سوا کسی دُوسرے  کی عبادت کرنے یا خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر قربانی اور نذر  و نیاز چڑھانے کے لیے مخصُوص کیے گئے ہوں۔ چوتھے پانسے۔ مؤ خّر الذکر تینوں چیزوں کی ضرورت تشریح پہلے کی جا چکی ہے۔ شراب کے متعلق احکام کی تفصیل حسب ذیل ہے:

شراب کی حُرمت کے سلسلہ میں اس سے پہلے دو حکم آچکے تھے ، جو سُورۂ بقرہ آیت ۲۱۹ اور سُورۂ نساء آیت ۴۳ میں گزر چکے ہیں۔ اب اس آخری حکم کے آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبّہ فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کو شراب سخت ناپسند ہے ، بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حکم آجائے ، لہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں۔ اس کے کچھ مدٔت بعد یہ آیت نازل ہوئی اور آپ نے اعلان کر ایا کہ اب جن کے پاس شراب ہو وہ نہ اسے پی سکتے ہیں ، نہ بیچ سکتے ہیں، بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں۔ چنانچہ اسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہادی گئی ۔ بعض لوگوں نے پُوچھا ہم یہُودیوں کو تحفۃً کیوں نہ دے دیں؟ آپ ؐ نے فرمایا” جس نے یہ چیز حرام کی ہے اُس نے اِسے تحفۃً دینے سے بھی منع کر دیا ہے“۔ بعض لوگوں نے پُوچھا  ہم شراب کو سِرکے میں کیوں نہ تبدیل کر دیں؟ آپ ؐ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حکم دیا کہ” نہیں، اسے بہا دو“۔ ایک صاحب نے باصرار دریافت کیا کہ دواء کے طور پر استعمال کی تو اجازت ہے؟ فرمایا” نہیں ، وہ دوا ء نہیں ہے بلکہ بیماری ہے“۔  ایک اَور صاحب نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! ہم ایک ایسے  علاقے  کے رہنے والے ہیں جو نہایت سرد ہے، اور ہمیں محنت بھی بہت کرنی پڑتی ہے۔ ہم لوگ شراب سے تکان اور سردی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ آپ ؐ نے پُوچھا جو چیز تم پیتے ہو وہ نشہ کرتی ہے؟ انہوں نے عرض کیا  ہاں۔ فرمایا تو اس سے پرہیز کرو۔ انہوں نے عرض کیا مگر ہمارے علاقے کے لوگ تو نہیں  مانیں گے ۔ فرمایا” اگر وہ نہ مانیں تو ان سے جنگ کرو“۔

ابنِ عمر ؓ  کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا لعَن اللہ الخمر و شاربھا و ساقیھا و بائعھا و مُبتا عھا و عاصر ھا و معتصر ھا و حاملھا و المحمولۃ الیہ۔” اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھوکر لے جانے والے پر اور اس شخص پر جس کے لیے وہ ڈھو کر لے جائی گئی ہو“۔

ایک اَور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دستر خوان پر کھانا کھانے سے منع فرمایا جس پر شراب  پی جا رہی ہو ۔ ابتداءً آپ نے اُن برتنوں کے استعمال کو منع فرما دیا تھا جس میں شراب بنائی اور پی جاتی تھی ۔ بعد میں جب شراب کی حُرمت کا حکم پُوری طرح نافذ ہو گیا تب آپ نے برتنوں پر سے  یہ قید اُٹھا دی۔

(خمر کا لفظ عرب میں انگوری شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا اور مجاز اً گیہُوں ، جَو ، کِشمِش،کھجُور اور شہد کی شرابوں کے لیے بھی یہ الفاظ بولتے تھے، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حُرمت کے اس حکم کو تمام اُن چیزوں پر عام قرار دیا جو نشہ پیدا کرنے والی ہیں۔ چنانچہ حدیث میں حضُور کے یہ واضح ارشادات ہمیں ملتے ہیں کہ کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔”  ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہرنشہ آور چیز حرام ہے“۔کل شراب ٍ اسکر فھو حرام۔” ہر وہ مشروب جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے“۔وانا انھی عن کل مسکرٍ۔”اور میں ہر نشہ آور چیز سے منع کرتا ہوں“۔ حضرت عمر ؓ نے جُمعہ کے خطبہ میں شراب کی یہ تعریف بیان کی تھی کہ  الخمر ما خامر العقل ۔”خمر سے مراد ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانک لے“۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اُصُول بیان فرمایا کہ   ما اسکر کثیرہ فقلیْلہ حرام ۔” جس چیز کی کثیر مقدار نشہ پیدا کر ے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے“۔ اور  ما اسکر الفرق منہ مفلٔ الکف منہ حرام ۔” جس چیز کا ایک پُورا قرابہ نشہ پیدا کرتا ہو اس کا  ایک چُلّو پینا بھی حرام ہے“۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانہ میں شراب پینے والے کے لیے کوئی خاص سزا مقرر نہ تھی۔ جو شخص اِس جُرم میں گرفتار ہو کر آتا تھا اُسے جُوتے ، لات، مُکّے، بل دی ہوئی چادروں کے سونٹے اور کھجُور کے سَنٹے مارے جاتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ ۴۰ ضربیں آپ ؐ کے زمانہ میں اس جُرم  پر لگائی  گئی ہیں۔ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانے میں ۴۰ کوڑے مارے جاتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں بھی ابتداءً کوڑوں ہی کی سزا رہی۔ پھر جب اُنہوں نے دیکھا کہ لوگ اس جُرم سے باز نہیں آتے تو اُنہوں نے صحابۂ کرام کے مشورے سے ۸۰ کوڑے سزا مقرر کی۔ اسی سزا کو امام مالک  ؒ  اور امام ابو حنیفہ ؒ ، اور ایک روایت کے بموجب امام شافعیؒ بھی، شراب کی حد قرار دیتے ہیں۔ مگر امام احمد ؒ ابن حنبل اور ایک دُوسری روایت کے مطابق امام شافعی ؒ ۴۰ کوڑوں کو قائل ہیں، اور حضرت علی ؓ نے بھی اسی کو پسند فرمایا ہے۔

شریعت کی رُو سے یہ بات حکومتِ اسلامی کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ شراب کی بندش کے اس حکم کو بزور و قوت نافذ کرے۔ حضرت عمر ؓ  کے زمانہ  میں بنی ثَقِیف کے ایک شخص رُوَیشِد نامی کی دوکان اس بنا پر جلوا دی گئی کہ وہ  خفیہ طور پر شراب بیچتا تھا۔ ایک دُوسرے موقع پر ایک پُورا گاؤں حضرت عمر ؓ کے حکم سے اِس قصُور پر جلا ڈالا گیا کہ وہاں خفیہ طریقہ سے شراب کی کشید اور فروخت کا کاروبار ہو رہا تھا۔