اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۹١

یہاں صریح طور پر ”طاغوت“ سے مراد وہ حاکم ہے جو قانونِ الہٰی کے سوا کسی دُوسرے  قانون کے مطابق فیصلہ کرتا ہو، اور وہ نظامِ عدالت ہے جو نہ تو اللہ کے اقتدارِ اعلیٰ کا مطیع ہو اور نہ اللہ کی کتاب کو آخرت سند مانتا ہو۔ لہٰذا یہ آیت اس معنیٰ میں بالکل صاف ہے کہ جو عدالت”طاغوت“ کی حیثیت رکھتی ہو اس کے پاس اپنے معاملات فیصلہ کے لیے لے جانا ایمان کے منافی ہے اور خدا اور اس کی کتاب پر ایمان لانے کا لازمی اقتضا  یہ ہے کہ آدمی ایسی عدالت کو جائز عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔ قرآن کی رُو سے اللہ پر ایمان  اور طاغوت سے کفر، دونوں لازم و ملزوم ہیں، اور خدا اور طاغوت دونوں کے آگے بیک وقت جُھکنا عین منافقت ہے۔