اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۸۹

یہ آیت اسلام کے پُورے مذہبی، تمدّنی اور سیاسی نظام کی بُنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں:

(۱) اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے۔ دُوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدِّ مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔ ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت  کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ  لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔  خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔

(۲)اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ   من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔“ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔

(۳)مذکورۂ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ اُن” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔”اولی الامر “ کے مفہُوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں، خواہ وہ ذہنی و فکری  رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا مُلکی انتظام کرنے والے حُکّام، یا عدلاتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدّنی و معاشرتی  امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلّوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ  اور سردار۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب. امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو، اور خدا و رسول کا مطیع ہو۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورۂ صدر میں صاف طور پر درج ہیں، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں:

 

السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم)

مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند ، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔

 

لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف۔ (بخاری و مسلم)

خدا اور رسُول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ”معروف“ میں ہے۔

 

یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بریٔ و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔(مسلم)

حضور ؐ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا ؤ گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔

 

یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت ِ خدا  و  رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔

 

شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضو نہم و یبغضو نکم و تلعنو نہم و یلعنو نکم قلنا یا رسول اللہ افلا ننا بذھم عند ذٗالک؟ قال لا ما اقامو ا فیکم الصلوۃ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ۔ (مسلم)

حضُور ؐ  نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور  وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جب یہ صُورت ہو تو کیا ہم اُن کے مقابلہ پر نہ اُٹھیں؟ فرمایا نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔

 

اس حدیث میں اُوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اُوپر کی حدیث سے گمان ہو سکتا تھا  کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابندِ نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی  یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان کی حکومت اپنی اُصُولی نوعیت کے اعتبار سے  ایک اسلامی حکومت ہے۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہو چکی ہے اور اسے اُلٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز  ہو جائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے مِن جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ  ان لا ننازع الامر ا ھلہ الا ان ترو اکفر ا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان، یعنی یہ کہ” ہم اپنے سرداروں اور حُکّام سے نزاع نہ کریں گے، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھُلم کھُلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو۔“ (بخار ی و مسلم)

(۴) چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے  یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند( Final authority ) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن  اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسُول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصُوصیّت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین  ایک غیر اسلامی نظا م ہے۔

اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل ِ زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سُنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اُصُولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدّعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اُس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اُسے دی ہے۔  کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اُصُول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند  سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسُول ﷺ  کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اِسی صُورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے، اور اُس کی یہ آزادیٔ عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا  اس کی طرف سے آزادیِ عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔