اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۸

یہ آیت وسیع معنی کی حامل ہے۔ اس میں اُمّت کو یہ جامع ہدایت فرمائی گئی ہے کہ مال جو ذریعہ قیام ِ زندگی ہے ، بہر حال ایسے نادان لوگوں کے اختیار و تصرف میں نہ رہنا چاہیے جو اسے غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام ِ تمدّن و معیشت اور بالآخر نظامِ اخلاق کو خراب کر دیں۔ حقوقِ ملکیت جو کسی شخص کو اپنے املاک پر حاصل ہیں اس قدر غیر محدُود نہیں ہیں کہ وہ اگر ان حقوق کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا  اہل نہ ہو اور ان کے استعمال سے اجتماعی فساد برپا کر دے تب بھی اس کے وہ حقوق سلب نہ کیے جا سکیں۔ جہاں تک آدمی کی ضروریات ِ زندگی کا تعلق ہے وہ تو ضرور پوری ہونی چاہئیں، لیکن جہاں تک حقوقِ مالکانہ کے آزاد انہ استعمال کا تعلق ہے اس پر یہ پابندی عائد ہونی چاہیے کہ یہ استعمال اخلاق و تمدّن اور اجتماعی معیشت کے لیے صریحاً مُضر نہ ہو۔ اس ہدایت کے مطابق چھوٹے پیمانہ پر ہر صاحبِ مال کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مال جس کے حوالہ کر رہا ہے  وہ اس کے استعمال کی صلاحیت رکھتا ہے  یا نہیں۔ اور بڑے پیمانہ پر حکومتِ اسلامی کو اس امر کا انتظام کرنا چاہیے کہ جو لوگ اپنے اموال پر خود مالکانہ تصرف کے اہل نہ ہوں، یا جو لوگ اپنی دولت کو بُرے طریقے پر استعمال کر رہے ہوں، ان کی املاک کو وہ اپنے انتظام میں لے لے اور ان کی ضروریات ِ زندگی کا بندوبست کر دے۔