اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۳۸

اِس امر پر اُمّت میں اتفاق ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے جس عورت کا دُودھ پیا ہو اس کے لیے وہ عورت ماں کے حکم میں اور اس کا شوہر باپ کے حکم میں ہے ، اور تمام وہ رشتے جو حقیقی ماں اور باپ کے تعلق سے حرام ہوجاتے ہیں۔ اس حکم کا ماخذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ  یحرم من الرضاع مایحرم من النسب۔  البتہ اس امر میں  اختلاف ہے کہ حرمت رضاعت کس قدر دُودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے۔امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہم اللہ  کے نزدیک جتنی مقدار سے روزہ دار کا روزہ ٹوٹ سکتا ہے  اتنی ہی مقدار میں اگر بچہ کسی کا دُودھ پی لے تو حُرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ مگر امام احمد ؒ کے نزدیک تین مرتبہ پینے سے اور امام شافعی ؒ کے نزدیک پانچ دفعہ پینے سے یہ حُرمت ثابت ہوتی ہے۔ نیز اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ کس عمر میں پینے سے یہ رشتے حرام ہوتے ہیں ۔ اس باب میں فقہاء کے اقوال حسبِ ذیل ہیں:

(١) اعتبار صرف اُس زمانہ میں دُودھ پینے کا ہے جبکہ بچّہ کا دُودھ چھڑا یا نہ جا چکا ہو اور شیر خوارگی ہی پر اس کے تغذیہ کا انحصار ہو۔ ورنہ دُودھ چھُٹائی کے بعد اگر کسی بچے  نے کسی عورت کا دُودھ پی لیا ہو تو اس کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے اُس نے پانی پی لیا ۔ یہ رائے اُم سَلَمَہ اور ابن عباس  کی ہے ۔ حضرت علی سے بھی ایک روایت اس معنی میں آئی ہے۔ زُہرِی، حَسَن بصری ، قَتادہ ، عِکرِمہ اور اَوزاعی اسی کے قائل ہیں۔

(۲) دوسال کی عمر کے اندر اندر جو دُودھ پیا گیا ہو صرف اسی سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی۔ یہ حضرت عمر  ؓ ، ابن مسعود،  ابوہریرہ  ؓ، اور ابن ِ عمر ؓ  کا قول ہے اور فقہاء میں سے امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف، امام محمد، اور سُفیان ثَوری نے اسے قُبول کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ  سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہے ۔ امام مالک بھی اسی حد کے قائل ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ دوسال سے اگر مہینہ دو مہینہ زائد عمر بھی ہو تو اس میں دُودھ پینے کا وہی حکم ہے۔

(۳) امام ابو حنیفہ اور امام زُفَر کا مشہور قول یہ ہے کہ زمانہٴ رضاعت ڈھائی سال ہے اور اس کے اندر پینے سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوتی ہے۔

(۴) خواہ کسی عمر میں دُودھ پیے، حرمت ثابت ہو جائے گی۔ یعنی اس معاملہ میں اصل اعتبار دُودھ کا ہے نہ کہ عمر کا۔ پینے والا اگر بوڑھا بھی ہو تو اس کا وہی حکم ہے جو شیر خوار بچے کا ہے۔ یہی رائے ہے حضرت عائشہ ؓ کی۔ اور حضرت علی ؓ سے بھی صحیح تر روایت اسی کی تائید میں منقول ہے۔ اور فقہاء میں سے عُروَہ بن زبیر ، عطاء، لَیث بن سعد اور ابن حَزم نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔