اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۳۲

تمدّنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعمُوم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ”جو ہو چکا سو ہو چکا“۔ اِس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ بے علمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو  ان پر گرفت نہیں کی جائے گی، بشرطیکہ اب حکم آجانے کے بعد اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو۔ دوسرے یہ کہ زمانہ ٴ سابق کےکسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرا یا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز، اور عائد شدہ ذمّہ داریوں کو لازماًً ساقط بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حقِ وراثت ساقط کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو  حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس  طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی۔