اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲٦

ان دونوں آیتوں میں زنا کی سزا بیان کی گئی ہے۔ پہلی آیت صرف زانیہ  عورتوں کے متعلق ہے اور ان کی سزا یہ ارشاد ہوئی ہے کہ انہیں تاحکمِ ثانی قید رکھا جائے۔ دُوسری آیت زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں کے بارے میں ہے کہ دونوں کو اذیّت دی جائے، یعنی مارا پیٹا جائے، سخت سُست کہا جائے  اور ان کی تذلیل کی جائے۔ زنا کےمتعلق یہ ابتدائی حکم تھا۔ بعد میں سُورہٴ نُور کی وہ آپت نازل ہوئی جس  میں مرد  اور عورت دونوں کے لیے ایک ہی حکم دیا گیا  کہ انہیں سو ١۰۰سو١۰۰  کوڑے لگائے جائیں۔ اہلِ عرب چونکہ اس وقت تک کسی باقاعدہ حکومت کے ماتحت  رہنے اور عدالت و قانون کے نظام کی اطاعت کرنے کے عادی نہ تھے، اس لیے یہ بات حکمت کے خلاف ہوتی اگر اسلامی حکومت قائم ہوتے ہی ایک قانونِ تعزیرات بنا کر دفعتًہ ان پر نافذ کر دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو رفتہ رفتہ تعزیری قوانین کا خوگر بنانے کے لیے پہلے زنا کےی متعلق یہ سزائیں تجویز فرمائیں ، پھر بتدریج زنا، قذف اور سرقہ کی حدیں مقرر کیں، اور بالآخر اسی بنا پر تعزیرات کا و ہ مفصّل قانون بنا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کی حکومت میں نافذ تھا۔

مفسر سُدِّی کو اِن دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دُوسری آیت غیر شادی شدہ مرد وعورت کے لیے۔ لیکن یہ ایک  کمزور تفسیر ہے جس کی تائید میں کوئی وزنی دلیل نہیں۔ اور اس سے زیادہ کمزور بات وہ ہے کہ جو ابو مسلم اصفہانی نے لکھی ہے کہ پہی آیت عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کے بارے میں ہے اور دوسری آیت مرد اور مرد کے ناجائز تعلق کے بارے میں۔ تعجب ہے ابو مسلم جیسے ذی علم شخص کی نظر اس حقیقت کی طرف کیوں نہ گئی کہ قرآن انسانی زندگی کے لیے قانون و اخلاق کی شاہراہ بناتا ہے اور اُنہی مسائل سے بحث کرتا ہے  جو شاہراہ پر پیش آتے ہیں۔ رہیں گلیاں اور پگڈنڈیاں، تو ان کی طرف توجہ کرنا اور ان پر پیش آنے والے ضمنی مسائل سے بحث کرنا کلامِ شاہانہ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے۔ ایسی چیزوں کو اس نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عہد ِ نبوّت کے بعد جب یہ سوال پیدا ہوا کہ مرد اور مرد کے ناجائز تعلق پر کیا سزا دی جائے تو صحابہٴ  کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہ سمجھا کہ سُورہ نساء کی اس آیت میں اس کا حکم موجود ہے۔