اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر۲۴

وصیّت میں ضرر رسانی یہ ہے کہ ایسے طور پر وصیّت کی جائے جس سے  مستحق رشتہ داروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں۔ اور قرض میں ضرر رسانی یہ ہے کہ محض حقداروں کو محرُوم کرنے کے لیے آدمی  خواہ مخواہ اپنے اُوپر ایسے قرض کا اقرار کرے جو اس نے فی الواقع نہ لیا ہو، یا اور کوئی ایسی چال چلے جس سے مقصُود یہ ہو کہ حقدار میراث سے محرُوم ہو جائیں۔ اس قسم کے ضِرار کو گناہ ِ کبیرہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ وصیّت میں نقصان رسانی بڑے گناہوں  میں سے ہے۔ اور ایک دُوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ آدمی تمام اہلِ جنّت کے سے کام کرتا رہتا ہے مگر  مرتے وقت وصیّت میں ضرر رسانی کر کے اپنی زندگی کو ایسے عمل پر ختم کر جاتا ہے جو اسے دوزخ کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ یہ ضِرار اور حق تلفی اگرچہ ہر حال میں گناہ ہے، مگر خاص طور پر کَلالہ کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جس شخص کے نہ اولاد ہو نہ ماں باپ ہوں اس میں عموماً  یہ میلان پیدا ہو جاتا ہے کہ اپنی جائداد کو کسی نہ کسی طرح تلف کر جائے اور  نسبتاً دُور کے رشتہ داروں کو حصّہ پانے سے محرُوم کر دے۔