اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۹۳

یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السّلام صلیب پر چڑھائے جانے سے پہلے اُٹھا لیے گئے تھے اور یہ کہ مسیحیوں اور یہودیوں ، دونوں کا یہ خیال کہ مسیح نے صلیب پر جان دی ، محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائیبل کے بیانات کا متقابل مطالعہ کرنے سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ غالباً پیلا طُس کی عدالت میں تو پیشی آپ ہی کی ہوئی تھی، مگر جب وہ سزائے موت کا فیصلہ سُنا چکا، اور جب یہودیوں نے مسیح جیسے پاک نفس انسان کے مقابلہ میں ایک ڈاکو کی جان کو زیادہ قیمتی ٹھیرا کر اپنی حق دشمنی و باطل پسندی پر آخری مُہر بھی لگا دی ، تب اللہ تعالیٰ نے کسی وقت آنجناب کو اُٹھالیا۔ بعدمیں یہودیوں نے جس شخص کو صلیب پر چڑھایا وہ آپ کی ذاتِ مقدس نہ تھی بلکہ کوئی اور شخص تھا جس کو نہ معلوم کس وجہ سے ان لوگوں نے عیسیٰ ابنِ مریم سمجھ لیا۔ تاہم ان کا جُرم اس سے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس کو انہوں نے کانٹوں کا تاج پہنایا ، جس کے مُنہ پر تھوکا اور جسے ذِلّت کے ساتھ صلیب چڑھایا اس کو وہ عیسیٰ بن مریم ہی سمجھ رہے تھے۔ اب یہ معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ معاملہ کس طرح ان کے لیے مشتبہ ہو گیا۔ چونکہ اس باب میں کوئی یقینی ذریعۂ معلومات نہیں ہے اس لیے مجرّد قیاس و گمان اور افواہوں کی بُنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُس شبہ کی نوعیّت  کیا تھی جس کی بنا پر یہُودی یہ سمجھے کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو صلیب دی ہے درآں حالے کہ عیسیٰ ابن مریم ان کے ہاتھ سے نِکل چکے تھے۔