اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۹۰

حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی پیدائش کا معاملہ یہُودی قوم میں فی الواقع ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا بلکہ جس روز  وہ پیدا ہوئے تھے اسی روز اللہ تعالیٰ نے پُوری قوم کو اس بات پر گواہ بنا دیا تھا کہ یہ ایک غیر معمُولی شخصیّت کا بچہ ہے جس کی ولادت معجزے کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اخلاقی جُرم کا۔ جب بنی اسرائیل کے ایک شریف ترین اور مشہوُر و نامور مذہبی گھرانے کی بن بیاہی لڑکی گو د میں بچہ لیے ہوئے آئی، اور قوم کے بڑے اور چھوٹے سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں اس کے گھر پر ہجوم کر کے آگئے، تو اس لڑکی نے ان کے سوالات کا جواب دینے کے بجائے خاموشی کے ساتھ اس نوزائیدہ بچے کی طرف اشارہ کر دیا کہ یہ تمہیں جواب دے گا۔ مجمع نے حیرت سے کہا کہ اس بچہ سے ہم کیا پوچھیں جو گہوارے میں لیٹا ہوا ہے۔ مگر یکایک وہ بچہ گویا ہو گیا اور اس نے نہایت صاف اور فصیح زبان میں مجمع کو خطاب کر کے کہا کہ  اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ قف اٰتٰنِیَ الْکِتٰبَ و َجَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ ” میں اللہ کا بندہ ہوں ، اللہ نے مجھے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے۔“(سُورہ مریم رکوع ۲)۔ اِس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس شبہ کی ہمیشہ کے لیے جڑ کاٹ دی تھی جو ولادت مسیح کے بارے میں پیدا  ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے سنِّ  شباب کو پہنچنے تک کبھی کسی نے نہ حضرت مریم ؑ  پر زنا کا الزام لگایا، نہ حضرت عیسٰی کو ناجائز ولادت کا طعنہ دیا ۔ لیکن نب تیس برس عمر کو پہنچ کر آپ نے نبوّت کے کام کی ابتدا فرمائی ، اور جب آپ نے  یہودیوں کو ان کی بد اعمالیوں پر ملامت کرنی شروع کی ، اُن کے عملاء و فقہا ء کو اُن کی ریاکاریوں پر ٹوکا، ان کے عوام اور خواص سب کو اُس اخلاقی زوال پر متنبہ کیا جس میں وہ مُبتلا ہو گئے تھے ، اور اُس پر خطر راستے کی طرف اپنی قوم کو دعوت دی جس میں خدا کے دین کو عملاً قائم کرنے کے لیے ہر قسم کی قربانیاں برداشت کرنی پڑتی تھیں اور ہر محاذ پر شیطانی قوتوں سے لڑائی کا سامنا تھا، تو یہ بے باک مجرم صداقت کی آواز کو دبانے کے لیے ہر ناپاک سے ناپاک ہتھیار استعمال کرنے پر اُتر آئے۔ اس وقت اِنہوں نے وہ بات کہی جو تیس سال تک نہ کہی تھی کہ مریم علیہا السلام معاذاللہ زانیہ ہیں اور عیسیٰ ابنِ مریم ولد الزّنا۔ حالانکہ یہ ظالم بالیقین جانتے تھے کہ  یہ دونوں ماں بیٹے اس گندگی سے بالکل پاک ہیں۔ پس درحقیقت ان کا یہ بہتان کسی حقیقی شبہہ کا نتیجہ نہ تھا جو واقعی ان کے دلوں میں موجود ہوتا ، بلکہ خالص بہتا تھا  جو انہوں نے جان بوجھ کر محض حق کی مخالفت کے لیے گھڑا تھا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم اور جھوٹ کے بجائے کفر قرار دیا ہے کیونکہ اس الزام سے ان کا اصل مقصد خدا کے دین کا  راستہ روکنا تھا نہ کہ ایک بے گناہ عورت پر الزام لگانا۔