اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١٦۸

اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے لیے دین محض ایک غیر سنجیدہ تفریح ہے۔ ایک کھلونا ہے جس سے وہ اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق کھیلتے رہتے ہیں۔ جب فضائے دماغی میں ایل لہر اُٹھی، مسلمان ہو گئے اور جب دُوسری لہر اُٹھی، کافر بن گئے۔ یا جب فائدہ مسلمان بن جانے میں نظر آیا ، مسلمان بن گئے اور جب معبودِ منفعت نے دُوسری طرف جلوہ دکھایا تو اس کی پُوجا کرنے کے لیے بے تکلف اسی طرف چلے گئے۔ ایسے لوگوں کے لیے اللہ کے پاس نہ مغفرت ہے نہ ہدایت۔ اور یہ جو فرمایا کہ” پھر اپنے کفر میں بڑھتے چلے گئے“ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص محض  کافر بن جانے ہی  پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کے بعد دوسرے لوگوں کو بھی اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے، اسلام کے خلاف خفیہ سازشیں اور علانیہ تدبیریں شروع کر دے، اور اپنی قوت اس سعی و جہد میں صرف کرنے لگے  کہ کفر کا بول بالا ہو اور اس کے مقابلہ میں اللہ کے دین کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔ یہ کفر میں مزید ترقی، اور ایک جرم پر پے در پے جرائم کا اضافہ ہے جس کا وبال بھی مجرّد کفر سے لازماً زیادہ ہونا چاہیے۔