اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۵۷

یہاں سے اصل استفتاء کا جواب شروع ہوتا ہے۔ اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے سوال کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔ زمانۂ  جاہلیت میں ایک شخص غیر محدود تعداد تک بیویاں کر نے کے لیے آزاد تھا اور  ان کثیر التعداد بیویوں کے لیے کچھ بھی حقوق مقرر نہ تھے ۔ سُورۂ نساء کی ابتدائی آیات جب نازل ہو ئیں تو اس آزادی پر دو قسم کی پابندیاں عائد ہوگئیں۔ ایک یہ کہ بیویوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چار تک محدود کر دی گئی۔ دوسرے یہ کہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کے لیے عدل ( یعنی مساویانہ برتا ؤ) کو شرط قرار دیا گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی شخص کی بیوی بانجھ ہے ، یا دائم المرض ہے، یا تعلقِ زن و شو کے قابل نہیں رہی ہے، اور شوہر دُوسری بیوی بیاہ لاتا ہے تو کیا وہ مجبُور ہے کہ دونوں کے ساتھ یکساں رغبت رکھے؟ یکساں محبت رکھے؟ جسمانی تعلق میں بھی یکسانی برتے؟ اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو کیا عدل کی شرط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دُوسری شادی کرنے کے لیے پہلی  بیوی  کو چھوڑ دے؟ نیز یہ کہ اگر پہلی بیوی خود جدا نہ ہونا چاہے تو کیا زوجین میں اس قسم کا معاملہ ہو سکتا ہے کہ جو بیوی غیر مرغوب ہو چکی ہے وہ اپنےبعض حقوق سے خود دست بردار ہو کر شوہر کو طلاق سے باز رہنے پر راضی کر لے؟ کیا ایسا کرنا عدل کی شرط کے خلا ف تو نہ ہوگا ؟ یہ سوالات ہیں جن کا جواب اِن آیات میں دیا گیا ہے۔