اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۴۸

خدائی ساخت میں ردّو بدل کرنے کا مطلب اشیاء کی پیدائشی بناوٹ میں ردّو بدل کرنا نہیں ہے۔ اگر اس کا یہ مطلب لیا جائے تب تو پوری انسانی تہذیب ہی شیطان کے اغوا کا نتیجہ قرار پائے گی۔ اس لیے کہ تہذیب تو نام ہی ان تصرفات کا ہے جو انسان خدا کی بنائی ہوئی چیزوں میں کرتا ہے ۔ دراصل اس جگہ جس ردّو بدل کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کسی چیز سے وہ کام لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا نہیں کیا ہے، اور کسی چیز سے وہ کام نہ لے جس کے لیے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر وہ تمام افعال جو انسان اپنی اور اشیاء کی فطرت کے خلاف کرتا ہے ، اور وہ تمام صورتیں جو وہ منشائے فطرت سے گریز کے لیے اختیار کرتا ہے ، اِس آیت کی رُوسے شیطان کی گمراہ کُن تحریکات کا نتیجہ ہیں۔ مثلاً عملِ قومِ لوط ، ضبطِ ولادت، رَہبانیت، پرہمچرج، مردوں اور عورتوں کو بانجھ بنایا، مردوں کو خواجہ سرا بنایا، عورتوں کو ان خدمات سے منحرف کرنا جو فطرت نے ان کے سپرد کی ہیں اور انہیں تمدّن کے اُن شعبوں میں گھسیٹ لانا جن کے لیے مرد  پیدا کیا گیا ہے۔ یہ اور ان طرح کے دُوسرے بے شمار افعال جو شیطان کے شاگرد دنیا میں کر رہے ہیں ، دراصل یہ معنی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ خالقِ کائنات کے ٹھیرائے ہوئے قوانین کو غلط سمجھتے ہیں اور ان میں اصلاح فرمانا چاہتے ہیں۔