اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۳۲

زمانۂ امن کے سفر میں قصر یہ ہے کہ جن اوقات کی نماز میں چار رکعتیں فرض ہیں ان میں دو رکعتیں پڑھی جائیں۔ اور حالتِ جنگ میں قصر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ جنگی حالات  جس طرح بھی اجازت دیں ، نماز پڑھی جائے۔ جماعت کا موقع ہو تو جماعت سے پڑھو ورنہ فرداً فرداً ہی سہی۔ قبلہ رُخ نہ  ہو سکتے ہو تو جدھر بھی رُخ ہو ۔ سواری پر بیٹھے ہوئے اور چلتے ہوئے بھی پڑھ سکتے ہو۔ رکوع و سجدہ ممکن نہ ہو تو اشارہ ہی سے سہی۔ ضرورت پڑے تو نماز ہی کی حالت میں چل بھی سکتے ہو۔ کپڑوں کو خون لگا ہوا ہو تب بھی مضائقہ نہیں۔ ان سب آسانیوں کے باوجود اگر ایسی پر خطر حالت ہو کہ کسی طرح نماز نہ پڑھی جا سکے تو مجبوراً مؤخر کی جائے جیسے جنگِ خندق کے موقع پر ہوا۔

اس امر میں اختلاف ہے کہ سفر میں صرف فرض پڑھے جائیں یا سنتیں بھی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ آپ سفر میں فجر کی سنتوں اور عشا کے وتر کا تو التزام فرماتے تھے مگر باقی اوقات میں صرف فرض پڑھتے تھے، سنتیں پڑھنے کا التزام آپ سے ثابت نہیں ہے۔ البتہ نفل نمازوں کا جب موقع ملتا تھا پڑھ لیا کرتے تھے، حتٰی کہ سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھتے رہتے تھے۔ اسی بنا پر حضرت عبداللہ بن عمر نے لوگوں کو سفر میں فجر کے سوا دوسرے اوقات کی سنتیں پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مگر اکثر علماء ترک اور فعل دونوں کوجائز قرار دیتے ہیں اور اسے بندے کے اختیار پر چھوڑ دیتے ہیں۔ حنفیہ کا مختار مذہب یہ ہے کہ مسافر جب راستہ طے کررہا ہو تو سنتیں نہ پڑھنا افضل ہے اور جب کسی مقام پر منزل کرے اور اطمینان حاصل ہو تو پڑھنا افضل ہے۔

جس سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے اس کے لیے بعض ائمّہ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ فی سبیل اللہ ہونا چاہیے، جیسے جہاد، حج، عمرہ ، طلب ِ علم وغیرہ۔ ابن عمر، ابن مسعود ؓ اور عطا ء کا یہی فتویٰ ہے۔امام شافعی ؒ   اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ سفر کسی ایسے مقصد کے لیے ہونا چاہیے جو شرعاً جائز ہو، حرام و ناجائز اغراض کے لیے جو سفر کیا جائے اس میں قصر کی اجازت  سے فائدہ اُٹھانے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ قصر ہر سفر میں کیا جا سکتا ہے ، رہی سفر کی نوعیت ، تو وہ بجائے خود ثواب یا عتاب کی مستحق ہو سکتی ہے ، مگر قصر کی اجازت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

بعض ائمہ نے ”مضائقہ نہیں“ (فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ) کا مفہُوم یہ سمجھا ہے کہ سفر میں قصر کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ محض اس کی اجازت ہے ۔ آدمی چاہے تو اس سے فائدہ اُٹھائے ورنہ پوری نماز پڑھے۔ یہی رائے امام شافعی ؒ نے اختیار کی ہے، اگرچہ وہ قصر کرنے کو افضل اور ترک ِ قصر کو ترکِ اولیٰ قرار دیتے ہیں۔  امام احمد ؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب تو نہیں ہے مگر نہ کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک قصر کرنا واجب ہے اور یہی رائے ایک روایت میں امام مالک ؒ سے بھی منقول ہے۔ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سفر میں قصر کیا ہے اور کسی معتبر روایت میں یہ منقول نہیں ہے کہ آپ ؐ نے کبھی سفر میں چار رکعتیں پڑھی ہوں۔ ابنِ عمر فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر  اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ سفروں میں رہا ہوں اور کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے قصر نہ کیا ہو۔ اسی کی تائید میں ابن عباس ؓ  اور دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی مستند روایات منقول ہیں۔ حضرت عثمان ؓ  نے جب حج کے موقع پر منیٰ میں چار رکعتیں پڑھائیں تو صحابہ نے اس پر اعتراض کیا اور حضرت عثمان ؓ  نے یہ جواب دے کر لوگوں کو مطمئن کیا کہ میں نے مکہ میں شادی کر لی ہے، اور چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سُنا ہے کہ جو شخص کسی شہر میں متأَ مِّل ہواہو وہ گویا اس شہر کا باشندہ ہے ، اس لیے میں نے یہاں قصر نہیں کیا۔ ان کثیر روایات کے خلاف دو روایتیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر اور اتمام دونوں درُست ہیں، لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کےعلاوہ خود حضرت عائشہ ؓ  ہی کے ثابت شدہ مسلک کے خلاف ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ ایک حالت بین السفر و الحضر بھی ہوتی ہے جس میں ایک ہی عارضی فرودگاہ پر حسب موقع کبھی قصر اور کبھی اتمام دونوں کیے جا سکتے ہیں، اور غالباً حضرت عائشہ ؓ نے اسی حالت کے متعلق فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں قصر بھی کیا ہے اور اتما م بھی۔  رہے قرآن کے یہ الفاظ کہ”مضائقہ نہیں اگر قصر کرو“ تو ان کی نظیر سُورۂ بقرہ رکوع ۱۹ میں گزر چکی ہے جہاں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کے متعلق بھی یہی الفاظ فرمائے گئے ہیں ، حالانکہ یہ سعی مناسک حج میں سے ہے اور واجب ہے۔ دراصل دونوں جگہ یہ کہنے کا مقصُود لوگوں کے اِس اندیشہ کو دُور کرنا ہے کہ ایسا کرنے سے کہیں کوئی  گناہ تو لازم نہیں آئے گا یا ثواب میں کمی تو نہ ہوگی۔

مقدارِ سفر جس میں قصر کیا جاسکتا ہے ، ظاہر یّہ کے نزدیک کچھ نہیں ہے، ہر سفر میں قصر کیا جا سکتا ہے خواہ کم ہو یا زیادہ ۔ امام مالک ؒ کے نزدیک ۴۸ میل یا ایک دن رات سے کم کے سفر میں قصر نہیں ہے۔ یہی رائے امام احمدؒ کی ہے۔ ابن عباس ؓ کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعیؒ سے بھی ایک قول اس کی تائید میں مروی ہے۔ حضرت اَنَس ۱۵ میل کے سفر میں قصر کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ امام اَوزاعی اور امام زُہری حضرت عمر ؓ کی اس رائے کو لیتے ہیں کہ ایک دن کا سفر قصر کے لیے کافی ہے۔ حَسن بصری دو دن، اور امام ابو یوسف دو دن سے زیادہ کی مسافت میں قصر جائز سمجھتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک جس سفر میں پیدل یا اونٹ کی سواری سے تین دن صرف ہوں ( یعنی تقریباً ۱۸ فرسنگ یا ۵۴ میل) اس میں قصر کیا جا سکتا ہے۔ یہی رائے ابن عمر، ابن مسعود اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کی ہے۔

اثنائے سفر میں دَورانِ قیام جس میں قصر کیا جا سکتا ہے مختلف ائمہ کے نزدیک مختلف ہے۔ امام احمد کے نزدیک جہاں آدمی نے چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا ہو وہاں پوری نماز پڑھنی ہوگی۔ امام مالک اور اما م شافعی کے نزدیک جہاں چاردن سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو وہاں قصر جائز نہیں۔ امام اوزاعی ۱۳ دن اور امام ابو حنیفہ ۱۵ دن یا اس سے زیادہ کی نیتِ قیام پر پوری نماز ادا کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کوئی صریح حکم مروی نہیں ہے۔ اور اگر کسی جگہ آدمی مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبُوری دور ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایسی جگہ بلا تعینِ مدت قصر کیا جاتا رہے گا۔ صحابۂ کرام سے بکثرت مثالیں ایسی منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حالات میں دو دو سال مسلسل قصر کیا ہے۔ امام احمد بن حنبل اسی پر قیاس کر کے قیدی کو بھی اس کے پُورے زمانۂ قید میں قصر کی اجازت دیتے ہیں۔