اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۳١

(یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص اللہ کے دین پر ایمان لایا ہو اس کےک لیے نظامِ کفر کے تحت زندگی بسر کرنا صرف دو ہی صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اسلام کو  اس سرزمین میں غالب کرنے اور نظامِ کفر کو نظامِ اسلام میں تبدیل کرنے کی جدوجہد کرتا  رہے جس طرح انبیاء علیہم السلام اور ان کے ابتدائی پیرو کرتے رہے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ وہ درحقیقت وہاں سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پاتا ہو اور سخت نفرت و بیزاری کے ساتھ وہاں مجبورانہ قیام رکھتا ہو۔ اس دو صورتوں  کے سوا ہر صُورت میں دار الکفر کا قیام ایک مستقل معصیت ہے اور اس معصیت کے لیے یہ عذر کوئی بہت وزنی عذر نہیں ہے کہ ہم دنیا میں کوئی ایسا دارالاسلام  پاتے ہی نہیں ہیں جہاں ہم ہجرت کر کے جا سکیں۔ اگر کوئی دارالاسلام موجود نہیں ہے تو کیا خدا کی زمین میں کوئی  پہاڑ یا کوئی جنگل بھی ایسا نہیں ہے جہاں آدمی درختوں کے پتے کھا کر اور بکریوں کا دودھ پی کر گزر کر سکتا ہو اور احکامِ کفر کی اطاعت سے بچا رہے؟

بعض لوگوں کو ایک حدیث سے غلط فہمی ہوئی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے کہ  لا ھجرۃ بعد الفتح،  یعنی فتح مکہ کے بعد اب ہجرت نہیں ہے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث کوئی دائمی حکم نہیں ہے بلکہ صرف اُس وقت کے حالات میں اہلِ عرب سے ایسا فرمایا گیا تھا۔ جب تک عرب کا بیشتر حصہ دارالکفر و دارالحرب تھا اور صرف مدینہ و اطراف مدینہ میں اسلامی احکام جاری ہو رہے تھے، مسلمانوں کے لیے تاکیدی حکم تھا کہ ہر طرف سے سمٹ کر دارالاسلام میں آجائیں۔ مگر جب فتح مکہ کے بعد عرب میں کفر کا زور ٹوٹ گیا اور قریب قریب پورا ملک اسلام کے زیر نگیں آگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ اب ہجرت کی حاجت باقی نہیں رہی ہے۔ اس سے  یہ مراد ہرگز نہ تھی کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے تمام حالات میں قیامت تک کے لیے ہجرت کی فرضیت منسوخ ہو گئی ہے۔