اس رکوع کو چھاپیں

سورة النساء حاشیہ نمبر١۲۵

یعنی یہ”جُرمانہ“نہیں بلکہ”توبہ“ اور ”کَفّارہ“ ہے۔ جرمانہ میں ندامت و شرمساری اور اصلاحِ نفس کی کوئی روح نہیں ہوتی بلکہ عموماً وہ سخت ناگواری کے ساتھ مجبوراً دیا  جاتا ہے اور بیزاری و تلخی اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ برعکس اس کے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس بندے سے خطا ہوئی ہو وہ عبادت اور کارِ خیر اور ادائے حقوق کے ذریعہ سے اس کا اثر اپنی رُوح پر سے دھودے، اور شرمساری و ندامت کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کرے ، تاکہ نہ صرف یہ گناہ معاف ہو بلکہ آئندہ کے لیے اس کا نفس ایسی غلطیوں کے اعادہ سے بھی محفوظ رہے۔ کفارہ کے لغوی معنی ہیں”چھپانے والی چیز“۔ کسی کارِ خیر کو گناہ کا ”کفارہ“قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نیکی اُس گناہ پر چھا جاتی ہے  اور اسے ڈھانک لیتی ہے، جیسے کسی دیوار پر داغ لگ گیا ہو اور اس پر سفیدی پھیر کر داغ کا اثر مٹا دیا جائے۔