اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر۹١

اِس مثال میں کھیتی سے مراد یہ کشتِ حیات ہے جس کی فصل آدمی کو آخرت میں کاٹنی ہے ۔ ہَوا سے مراد وہ اُوپری جزبہٴ خیر ہے جس کی بنا پر کفار رفاہِ عام کے کاموں اور خیرات وغیرہ میں دولت صرف کرتے ہیں ۔ اور پالے سے مراد صحیح ایمان اور ضابطہٴ خداوندی  کی پیروی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ان کو پوری زندگی غلط ہو کر رہ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس تمثیل سے یہ بتا نا چاہتا ہے کہ جس طرح ہوا کھیتیوں کی پرورش کے لیے مفید ہے لیکن اگر اسی ہوا میں پالا ہو تو کھیتی کو پرورش کرنے کے بجائے اسے تباہ  کر ڈالتی ہے ، اسی طرح  خیرات بھی اگرچہ انسان کے مزرعہٴ آخرت کو پرورش کرنے والی چیز ہے ، مگر جب اس کے  اند رکفر کا زہر ملا ہو ا ہو تو یہی خیرات مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مہلک بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کا مالک اللہ ہے ، اور اُس مال کا مالک بھی اللہ  ہی ہے جس میں انسان تصرف کر رہا ہے ، اور یہ مملکت بھی اللہ ہی کی ہے جس کے اند ر رہ کر انسان کام کر رہا ہے ۔ اب اگر اللہ یا یہ غلام اپنے مالک کے اقتدارِ اعلیٰ  کو تسلیم نہیں کرتا، یا اس کی بندگی کے ساتھ کسی اَور کی ناجائز بندگی  بھی شریک کرتا ہے ، اور اللہ کے مال اور اس کی مملکت میں تصرف کرتے ہوئے  اس کے قانون و ضابطہ کی اطاعت نہیں کرتا ، تو اس کے یہ تمام تصرفات ازسر تا پا جُرم بن جاتے ہیں۔ اجر ملنا کیسا وہ  تواِس کا مستحق ہے کہ اِن تمام حرکات کے لیے اس پر فوجداری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ اُ س کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسے ایک نوکر اپنے آقا کی اجازت کے بغیر اس کا خزانہ کھولے اور جہاں جہاں اپنی دانست میں مناسب سمجھے خرچ کر ڈالے۔