اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر٦

متشابہات ، یعنی وہ آیات جن کے مفہُوم میں اشتباہ کی گنجائش ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ انسان کے لیے زندگی کا کوئی راستہ تجویز نہیں کیا جا سکتا، جب تک کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس میں انسان کی حیثیت اور ایسے ہی دُوسرے بُنیادی اُمور کے متعلق کم سے کم ضروری معلومت انسان کو نہ دی جائیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماورا ہیں ، جو انسانی علم کی گرفت میں نہ کبھی آئی ہیں ،  نہ آسکتی ہیں، جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا، نہ چھُوا ، نہ چکھا، اُن کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو اُنہی کے لیے وضع کیے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیبِ بیان مِل سکتے ہیں ، جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح تصویر کھِنچ جائے۔ لامحالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کر نے کے لیے الفاظ اور اسالیبِ بیان وہ استعمال کیے جائیں، جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسُوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ مابعد الطبیعی مسائل کے بیان میں قرآن کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں ، جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔

لیکن اِس زبان کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بس اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ آدمی کو حقیقت  کے قریب تک پہنچا دے یا اس کا ایک دُھندلا سا تصوّر پیدا کردے۔  ایسی آیات کے مفہوم کو متعین کرنے کی جتنی زیادہ کوشش کی جائے گی ، اتنے ہی زیادہ اشتباہات و احتمالات سے سابقہ پیش آئے گا، حتٰی کہ انسان حقیقت سے قریب تر ہونے کے بجائے اَور زیادہ دُور ہوتا چلا جائے گا۔ پس جو لوگ طالبِ حق ہیں اور ذوقِ فضول نہیں رکھتے، وہ تو متشابہات سے حقیقت کے اُس دُھندلے تصوّر پر قناعت  کر لیتے ہیں جو کام چلانے کے لیے کافی ہے اور اپنی تمام تر توجہ محکمات پر صرف کرتے ہیں، مگر جو لوگ بُوالفضول یا فتنہ جو ہوتے ہیں ، اُن کا تمام تر مشغلہ متشابہات  ہی کی بحث و تنقیب ہوتا ہے۔