اس رکوع کو چھاپیں

سورة ال عمران حاشیہ نمبر۵۵

فیصلہ کی یہ صُورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصُود تھا کہ وفدِ نجران جان بُوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے۔اُوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی اُن لوگوں  کے پاس نہ تھا ۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کام یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق  ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہر گز نہیں ہے۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہلِ وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوّت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے۔ اس لیے جب اُن سے کہا گیا کہ اچھّا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آ ؤ ہمارے مقابلہ میں دُعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھُل گئی کہ  نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری ، جن کے تقدس کا سکّہ دُور دُور تک رواں ہے، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے۔